ملک میں سردی کی آمد کے ساتھ ہی گیس صارفین کے لیے ویسے بھی غائب ہوجاتی ہے،
موسم گرما کے دوران شہریوں کو گیس بحران کا سامنا تھا اب سردیوں میں گیس کی ضرورت زیادہ پڑتی ہے
مگر یہ استعمال تب ہوگی جب دستیاب ہوگی، گیس پریشر میں کمی اور غائب ہونے کا معاملہ اپنی جگہ برقرار ہے جس کی وجہ سے شہری شدید اذیت میں مبتلا ہیں گھروں میں گیس نہ آنے کی وجہ سے لوگ گیس سلینڈر استعمال کرنے پر مجبور ہیں اور وہ بھی بہت مہنگے داموں فروخت کی جارہی ہیں
شہری مہنگائی کے اس دورمیں کس طرح اپنا گزارہ کرسکیں گے۔ عوام مہنگائی کے مشکلات سے ابھی نکلے نہیں ہیں
کہ آئل اینڈ گیس ریگو لیٹری اتھارٹی اوگرا نے گیس کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔اوگرا کے مطابق ماہانہ 25 سے 90 مکعب میٹر تک گیس کے پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے قیمت نہیں بڑھائی گئی البتہ پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے فکس چارجز 10 سے بڑھا کر 400 روپے کر دیے گئے۔
نان پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین کے لیے گیس کی قیمت میں 172 فیصد سے زائد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ ماہانہ 25 مکعب میٹر گیس کی قیمت 200 سے بڑھا کر 300 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کی گئی ہے۔ماہانہ 60 مکعب میٹر گیس کی قیمت 300 سے بڑھ کر 600 روپے
فی ایم ایم بی ٹی یو، ماہانہ 100 مکعب میٹر گیس کی قیمت 400 سے بڑھا کر 1000 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کی گئی ہے۔نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ماہانہ 150 مکعب میٹر گیس کی قیمت 600 سے بڑھا کر 1200روپے فی ایم ایم بی ٹی یو جبکہ ماہانہ 200 مکعب میٹر گیس کی قیمت 800 سے بڑھا کر 1600 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر ہوئی ہے۔
ماہانہ 300 مکعب میٹر گیس کی قیمت 1100 سے بڑھا کر 3000 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اور ماہانہ 400 مکعب میٹرگیس کی قیمت 2000 سے بڑھا کر 3500 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کی گئی ہے۔ماہانہ 400 مکعب میٹر گیس کی قیمت 3100 سے بڑھا کر 4000 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کی گئی ہے۔
اوگرا کے نوٹیفکیشن کے مطابق تندوروں کے لیے گیس کی قیمت 600 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو برقرار رکھی گئی ہے اور پاور پلانٹس کیلئے بھی گیس قیمت 1050 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو برقرار ہے۔سیمنٹ سیکٹر کیلئے گیس کی قیمت 4400 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اور سی این جی سیکٹر کے لیے گیس کی فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت 3600 روپے مقرر کی گئی ہے۔اس کے علاوہ برآمدی صنعتوں کیلئے گیس کی قیمت 2100 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اور غیر برآمدی صنعتوں کے لیے گیس کی قیمت 2200 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کی گئی ہے۔
گیس کی نئی قیمتوں کا اطلاق یکم نومبر سے ہو گا۔بہرحال عوام پر ایک اور عذاب گیس بم کے ذریعے گرادیا گیا ہے۔ مختلف چارجز کے بہانے ان کی جیبوں سے بھاری رقم نکالی جائے گی مگر گیس پائپ میں ہوا کے سوا کچھ نہیں آئے گی
،اس سنگین بحران کو حل کرنے کے لیے سابقہ حکومتوں کو کام کرنا چاہئے تھا موجودہ نگراں حکومت ماضی کی معاشی پالیسیوں کو لیکر چل رہی ہے اس لیے شکوہ نگراں حکومت سے بنتا نہیں ہے
جنہوں نے طویل عرصے حکومتیں کی ہیں موجودہ بحرانات کا ذمہ دار بھی وہی ہیں۔ ملک کے سرد علاقوں خاص کر بلوچستان میں تو ویسے بھی موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی گیس غائب ہوچکی ہے عوام سراپااحتجاج ہیں اور باربار شکایات کررہے ہیں کہ گیس پریشر کی کمی کامسئلہ حل کیاجائے اور گیس کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں مگر سوئی گیس حکام ٹس سے مس تک نہیں ہورہی
اور شہری شدید سردی سے بچاؤ کے لیے لکڑیوں سمیت دیگر متبادل ذرائع استعمال کرنے پر مجبورہیں۔ خدارا، اگلی حکومت عوام پر رحم کھاکر انہیں سہولیات فراہم کرے ماضی کا رونا دونا اب چھوڑ دینا چاہئے کہ کس کس کی غلط پالیسیوں سے بحرانات پیدا ہوئے اب اس کا علاج کرنے پر توجہ دی جائے۔