|

وقتِ اشاعت :   March 17 – 2016

واشنگٹن: روس کی فوج مداخلت جتنی عجلت سے شام میں شروع ہوئی تھی اسی تیز رفتاری سے ختم بھی ہو گئی پوٹن نے اچانک شام سے اپنے افواج کی واپسی کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ ہوائی حملوں میں بہت زیادہ کمی کر دی ہے شام حکومکت مخالف جنگجوؤں کے خلاف ہوائی حملے نہ ہونے کے برابر ہیں پوٹن کا فوجیں واپس بلانے کا اعلان اس وقت آیا جب جنیوا میں امن مذاکرات شروع ہوئے کہ شام میں جنگ بندی کے بعد نئی حکو مت سازی پر مذاکرات شروع کئے جائیں جس میں صدر بشارالاسد کا کوئی کردار نہیں ہو گا شام کی خانہ جنگی میں تین لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ایک کروڑ سے زیادہ لوگ بے گھر ہو گئے ہیں یا اپنا وطن چھوڑ چکے ہیں شام میں امن کے دوبارہ قیام کے لئے مغرب اور روس کا موقف یکساں نظر آتا ہے روس کی شام میں طویل عرصے تک موجوددگی کی صورت میں روس کو فائدہ سے زیادہ نقصانات کا اندیشہ ہے پوٹن کے ذہن میں یہ سوال کبھی نہیں آیا کہ شام کی جو زمین داعش نے قبضہ کر لی ہے اس کو روس واگذار کرا سکے گا روس نے شام میں اس وقت مداخلت کی جب شامی حکومت جنگ ہار رہی تھی روس کے فوجی انخلاء کے بعد صدر کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ اب مذاکرات کے سوائے کوئی دوسرا چارہ کار نہیں بچا روس نے اپنی فتح کا اعلان کر کے شام سے نکل آیا اس سے پہلے وہ جنگ کے طویل دلدل میں پھنس جائے روس نے یہ کام کر رہا ہے مخالفین کو میز پر بات چیت کے لئے بٹھا دیا روس تاہم اس مطالبے میں اپنے اڈے برقرار رکھے گا ان کو ختم نہیں کرے گا اگر روس کو شام میں موجودگی کی یقین دہانی کرادی جائے تو روس کیلئے صدر اسد کوئی اہمیت نہیں رکھتا پوٹن کو یہ یقین ہے کہ صدر اسد کو ضرور جانا ہے داعش کی فوجی قوت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے شامی فوجیں عنقریب ان کو شکست سے دوچار کر دیں گی مغربی اور سنی ممالک کے مطالبہ پر صدر اسد استعفیٰ دیں تو مذاکرات میں تعطل آ سکتا ہے لیکن صدر روسی دباؤ میں استعفیٰ دے سکتے ہیں روس 34 سنی اور مسلمان ممالک کو صرف صدر اسد کی خاطر ناراض نہیں کر سکتا اتنے سارے ملکوں سے روس بے دخل نہیں ہونا چاہتا لہذا وہ سعودی عرب کے زیادہ قریب اور ایران اور شام سے دور تر ہوتا جائے گا صدر اسد اور اہل خانہ کے ساتھ ملک بدر ہو جائیں گے 50 کے لگ بھگ فوجی افسران پر بین الاقوامی عدالت افغان میں مقدمہ چلایا جائے گا