کوئٹہ: گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ نے بلوچستان اور بالخصوص کوئٹہ میں پانی کے بڑھتے ہوئے بحران جیسے حساس مسئلے پر توجہ مرکوز کی ہے جو درحقیقت زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ گورنر نے کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں زیرزمین پانی کی گرتی ہوئی سطح پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر صورتحال کی بہتری کے لئے مؤثر اقدامات نہ کئے گئے تو بلوچستان اور پاکستان کی ترقی کے عظیم تر منصوبے چین پاکستان راہداری پر عملدرآمد کے حوالے سے منفی اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ تمام صنعتوں اور اسکیموں میں پانی کی دستیابی کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے “کوئٹہ میں پانی کے بحران اور اس کے حل کے امکانات” کے موضوع پر دوروزہ سیمینار کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی میں سیمینار کا اہتمام صوبائی محکمہ پبلک ہیلتھ نے پاک فوج کے سدرن کمانڈ کے اشتراک سے کیا ہے۔ گورنر نے اس موقع پر کہا کہ بلوچستان اپنے مخصوص آب وہوا، پیداوار، نظام آبپاشی، بارشوں کی مقدار کے حوالے سے ملک کے دیگر صوبوں سے قطعی مختلف ہے۔ صوبے کی معیشت بنیادی طور پر زرعی ہے اور زراعت اور مالداری کے آمدن کے بڑے ذرائع ہیں۔ گورنر نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ناقص منصوبہ بندی کے باعث صوبے میں صدیوں سے موجود درختوں ،جنگلات اور قدرتی آبی ذخائر کو محفوظ نہ رکھا جاسکا ہے جبکہ ضرورت کے مطابق بندات کی تعمیر بھی نہ ہوسکی۔ انہوں نے برطانوی دور میں بنائے گئے بندخوشدل خان اور سپین کاریز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انگریز کے چلے جانے کے بعد ہم نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جو پانی کے بحران کو وسیع کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ گورنر بلوچستان نے کہا کہ پانی کی موجودہ صورتحال خاص طور سے پانی کی گرتی ہوئی سطح دیکھتے ہوئے ماہرین نے چھوٹے بندات کی تعمیر کا مشورہ دیا ہے۔ اس سلسلے میں ابتدائی کاروائی کی جارہی ہے تاہم مذکورہ منصوبے پر تیزی سے عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ کئی عشروں میں پہاڑی علاقوں میں خشک سالی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر شہروں کو آبادی کی منتقلی ہوئی ہے، کوئٹہ شہر میں آنے والے ایسے افراد کی تعداد 30لاکھ بتائی جاتی ہے یہ افراد کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے خشک ہوتے کنوؤں بچاکچا پانی بھی نکال رہے ہیں جو خشک سالی میں اضافہ کا باعث بن رہے ہیں۔ انہوں نے منصوبہ بندی کے بغیر ٹیوب ویلوں کی بھرمار کو پانی کے موجودہ بحران کا ذمہ دار قراردیا۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال پر قابو پانے کے لئے بندات بنانے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔دوروزہ سیمینار میں افتتاحی سیشن میں مختلف ماہرین نے تحقیقی مقالے پیش کئے اس موقع پر صوبائی وزیر نواب ایاز جوگیزئی، رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ زیرے، وائس چانسلر سردار بہادر خان یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال، سیکریٹری پی ایچ ای شیخ نواز احمد، پرنسپل سیکریٹری ٹو گورنر بلوچستان عبدالجبار، صوبائی سیکریٹری ڈاکٹر عمر بابر کے علاوہ اساتذہ اور طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ آخر میں گورنر بلوچستان نے سیمینار میں مقالے پڑھنے والے ماہرین اور سیمینار کے منتظمین کو یادگاری شیلڈ دیئے،علاوہ ازیں گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے کہا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری بلوچستان اور پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے علاوہ خطے میں تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ اور انقلابی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک عوامی جمہوریہ چین کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کا ایک حصہ ہے جو دنیا کے تجارتی ومعاشی سرگرمیوں کے لئے مربوط کرنے کے سمندری راستوں کے متبادل کے طور پر پوری دنیا کو زمینی راستوں کے ذریعے مربوط کرے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز گورنر ہاؤس کوئٹہ میں کراچی میں تعینات جرمن قونصل جنرل (Mr. Rainer Scheidchen) سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ملاقات کے دوران جرمنی اور فرانس کے اعزازی قونصل جنرل بریگیڈیئر (ر) عبدالرزاق بلوچ بھی موجود تھے۔ اس موقع پر گورنر بلوچستان نے دورے پر آئے ہوئے جرمن سفارتکار کو بتایا کہ بلوچستان قدرتی ومعدنی وسائل سے مالامال ہے تاہم انہیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لئے بیرونی تعاون ہمارے لئے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ گورنر نے کہا کہ بلوچستان میں پہلی مرتبہ مقامی حقیقی قیادت کو حکمرانی کا موقع ملا ہے اور وہ صوبے کی پسماندگی اور محرومی دور کرنے کے لئے ہرممکن اقدامات کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں صوبے میں امن وامان کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت بیرونی سرمایہ کاروں کو مکمل تحفظ اور تمام ضروری سہولیات مہیا کرنے کا پختہ ارادہ رکھتی ہے۔ جرمن سفارتکار نے اپنے ملک کی جرمن کمپنیوں کی جانب سے بلوچستان میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا جس پر گورنر بلوچستان نے اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ ان میں سے جو بھی گوادر کا دورہ کرنا چاہے گا صوبائی حکومت ہرممکن تعاون کرے گی۔