پاکستان میں دہشت گردی کے بڑے واقعات اور سانحات میں غیر قانونی مقیم افراد کے ملوث ہونے کو رد نہیں کیاجاسکتا،
ماضی میں بھی اس کے ٹھوس شواہد ریاست کے پاس رہے ہیں جبکہ سرحد پار کرکے دہشت گرد ملک کے اندر دہشت گردی کی کاروائیاں کرتے آئے ہیں۔
پاکستان نے اپنے دفاع کے لیے سرحدوں پر باڑ لگانے کافیصلہ کیا تاکہ دہشت گردی کا تدارک ہوسکے چونکہ پاک افغان سرحد طویل ہے باڑ لگانے میں وقت درکار ہوتا ہے مگر انتھک کوششوں سے باڑ لگائے گئے مگر اس دوران وقتاََفوقتاَدہشت گردوں کی جانب سے فائرنگ کے واقعات پیش آئے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ سرحد کے اس پار دہشت گرد اپنے مذموم مقاصدکے لیے پاکستان میں دہشت گردی پھیلانا چاہتے ہیں
اور اس میں پڑوسی ممالک کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں۔ پاکستان نے بارہا افغان حکومتوں کو اس حوالے سے آگاہ بھی کیا کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے بھارت کی لابی وہاں کام کررہی ہے
جسے روکنا ضروری ہے مگر سنجیدگی کے ساتھ مسئلے کو نہیں لیاگیابلکہ افغان حکومتیں بے بس دکھائی دیتی رہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ سمیت عالمی برادری نے پاکستان کو وہ اہمیت نہیں دی جو بھارت کو دی گئی اس جنگ کے دوران پاکستان نے جانی ومالی نقصانات بڑے پیمانے پراٹھائے،مہاجرین کا بوجھ بھی برداشت کیا مہمان نوازی بھی کی مگر اس کے باوجود بھی یہاں مقیم چند غیر قانونی عناصر دہشت گردوں کے سہولت کار بن کر کام کرتے رہے۔ اس لیے ریاست نے اب یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ نہ صرف افغان غیرقانونی باشندے بلکہ تمام غیرملکی افراد جو غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں
انہیں ان کے وطن باعزت طریقے سے واپس بھیجا جائے گا جس کا عمل شروع ہوچکا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو خاندانوں کے ساتھ روانہ کردیا گیا ہے۔ افغان عبوری حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ تعاون کرے اور مستقبل میں اچھے تعلقات کے لیے حکمت عملی مرتب کرے کیونکہ پڑوسی تبدیل نہیں ہوتے ا
نہیں ایک ساتھ چلنا ہوتا ہے خطے کے اندر مفادات یکساں ہوتے ہیں اگر کشیدہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس سے نقصان سب کا ہوگا۔ خطے میں سیاسی اورمعاشی استحکام لانے کے لیے کوششیں کرنی چاہئے۔
بہرحال دہشت گردوں کی حمایت یا سرزمین کے استعمال ہونے کو پاکستانی ریاست برداشت نہیں کرے گی۔ ایک بار پھر پاکستان کو شواہد ملے ہیں کہ غیر قانونی مقیم افراد کے رابطے دہشت گردوں کے ساتھ ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا ہے ہمارے پاس انٹیلیجنس معلومات ہیں کہ دہشت گرد پاکستان میں غیر قانونی مقیم افراد سے رابطے میں ہیں۔ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ کا ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں کہنا تھا ہم نے انٹیلیجنس معلومات پر افغانستان کی عبوری حکومت کو دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کا کہا ہے
، ہم کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف ٹھوس کارروائی کے خواہاں ہیں، ہم چاہتے ہیں پاکستان کی سکیورٹی کیلئے خطرہ پیدا کرنے والا یہ گروپ ختم کیا جائے۔پ
اکستان سے 58 ہزار 368 افراد تیسرے ممالک میں چلے گئے ہیں، پاکستان افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تجارت اور ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت دیتا رہے گا، جعلی دستاویزات پر بنائے گئے
کاروبار کو پاکستانی قوانین کے تحت نمٹا جائے گا، اس حوالے سے سیکرٹری داخلہ کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس قائم ہے، یہ ٹاسک فورس غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی پراپرٹیز کا جائزہ لے رہی ہے۔
بہرحال پاکستان اب بھی تحمل سے کام لے رہا ہے اور شواہد سے افغان عبوری حکومت کو آگاہ کررہی ہے اب افغان عبوری حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات دوستانہ ماحول میں آگے بڑھیں۔ جہاں تک غیرقانونی افغان باشندوں کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے ریاست کی پالیسی واضح ہے کہ انہیں باعزت طریقے سے اپنے وطن بھیجنا ہے جس میں کوئی رعایت نہیں کی جائے گی جن کے پاس دستاویزات ہیں وہ رہ سکتے ہیں جو عالمی قوانین کے عین مطابق ہے۔