اسرائیل اور حماس عارضی جنگ بندی ایک اہم پیش رفت ہے لیکن یہ عارضی طور پر نہیں ہونی چاہئے بلکہ مکمل جنگ بندی کرکے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے حوالے سے بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانا چاہئے تاکہ مستقبل قریب میں دوبارہ جنگ کے خطرات خطے میں پیدا نہ ہوں کیونکہ اس خطے میں جنگ کی وجہ سے انسانی بحران پیدا ہورہا ہے۔ حالیہ جنگ اس کی ایک واضح مثال ہے
جب یہ جنگ طول پکڑے گی تو پورے مشرق وسطیٰ سمیت عالمی امن کے لیے خطرے کا باعث بنے گی ماضی میں بھی دنیا میں جنگیں ہوئیں ان کے نتائج سب کے سامنے ہیں کہ کس طرح سے جنگ شدت تک پہنچ گئی اور ایٹمی ہتھیار استعمال کئے گئے جس سے پوری دنیا کا سیاسی، معاشی،
سماجی نظام تباہ ہوکر رہ گیا۔ افغانستان، شام، عراق، جیسی جنگوں نے بھی مسلمان ممالک کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا، عالمی طاقتوں کو مسلمان ممالک کے متعلق اپنی پالیسیاں بدلنے کی ضرورت ہے اور اس کا واحد راستہ امن، ترقی خوشحالی ہے ایک دوسرے کے ساتھ بہترین روابط ہیں۔
بہرحال گزشتہ روز اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں وقفے پر اتفاق ہوگیا۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں وقفے پر اتفاق کا اعلان قطر نے کیا۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں 4 روز کے وقفے پر اتفاق کا معاہدہ کیا گیا ہے جس کے تحت فلسطینی مزاحمتی گروپ 7 اکتوبر سے یرغمال بنائے گئے افراد کو رہا کرے گا جس میں 50 خواتین اور بچے شامل ہیں۔
اسرائیلی قید سے 150 فلسطینی رہا کیے جائیں گے۔ اسرائیل اورحماس کے درمیان عارضی جنگ بندی کامعاہدہ انسانی بنیادوں پرہوا جس کے تحت امدادی سامان غزہ لے جانے کی اجازت ہوگی جب کہ امدادی سامان میں ایندھن کی ترسیل بھی شامل ہے۔یرغمالیوں کی رہائی کے پہلے مرحلے میں قید خواتین اوربچوں کی رہائی کا تبادلہ شامل ہے۔
قطر کے وزیر خارجہ نے کہا کہ حماس مزید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کاعہد کرے تو جنگ بندی میں توسیع ہوسکتی ہے، قیدیوں کا تبادلہ ہلال احمر، اسرائیل، قطر اور حماس کی معاونت سے عمل میں آئے گا۔
مصر کے صدر نے جنگ بندی معاہدے میں کردار ادا کرنے پر امریکی صدر جوبائیڈن اور امیر قطر کا شکریہ ادا کیا جب کہ امریکی صدر نے کہا کہ معاہدے کے تمام پہلوؤں پر مکمل طور پر عمل کیا جاناضروری ہے،
غزہ جنگ میں وقفے کے لیے اسرائیلی صدر اور ان کی حکومت کے عزم کو سراہتاہوں۔اس سے قبل اسرائیلی وزیراعظم کی زیر صدارت کابینہ ا جلاس میں حماس کے ساتھ غزہ کے یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کی منظوری دی گئی تھی۔
اسرائیلی حکومت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ میں حماس کے زیر حراست 50 افراد کی رہائی کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور عارضی جنگ بندی کے معاہدے کی منظوری دی ہے۔ معاہدے کی منظوری کیلئے کابینہ اجلاس سے قبل اسرائیلی وزیراعظم نے اپنی جنگی کابینہ اور نیشنل سکیورٹی کابینہ سے مشاورت کی۔
اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی مدد سے عارضی جنگ بندی اور حماس کے پاس قید یرغمالیوں کی رہائی اور عارضی جنگ بندی کے معاہدے پر پہنچے ہیں لیکن اسرائیل اپنا مشن جاری رکھے گا اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔
اس سے قبل حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی جانب سے بھی جنگ بندی معاہدے کے قریب پہنچنے کا عندیہ دیا گیا تھا۔
اسماعیل ہنیہ کا کہنا تھا کہ ہم جنگ بندی کے ایک معاہدے تک پہنچنے کے قریب ہیں، حماس نے اپنا مؤقف قطر کے بھائیوں اور ثالثوں کو پہنچادیا ہے۔
دوسری جانب امریکا کا کہنا ہے کہ تنازع کا نتیجہ کیا نکلے گا کہنا مشکل ہے تاہم جنگ کے اختتام پر فلسطینی ریاست کا قیام دیکھنا چاہتے ہیں، وضع اصول کے تحت غزہ علاقے میں کمی نہیں ہونی چاہیے،
کسی فلسطینی کو غزہ سے بے دخل نہ کیا جائے۔ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ ایسی فلسطینی ریاست کاقیام جو مغربی کنارے اور غزہ کو متحد کرے، یہ وہ پالیسی ہے جسے امریکا سپورٹ کرتا اور حاصل کرنا چاہتا ہے۔ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے اپنی پریس بریفنگ میں کہا کہ کوشش ہے کہ غزہ میں کم سے کم جانی نقصان ہو، زیادہ انسانی امداد پہنچائی جا سکے۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر سے غزہ پر جاری اسرائیلی حملوں میں اب تک 14 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں 5500 بچے اور متعدد خواتین بھی شامل ہیں جب کہ 33 ہزار سے زائد فلسطینی شہر ی زخمی ہیں اور اس وقت فلسطین میں صورتحال بہت زیادہ خراب ہے، غزہ مکمل تباہ ہوکر رہ گیا ہے مسلسل اسرائیل کی جانب سے بمباری بغیر کسی وقفے کے جاری ہے روزانہ کی بنیادپرسینکڑوں فلسطینی شہید ہورہے ہیں، اسپتال، پناہ گزین کیمپ، اسکول، رہائشی عمارتیں کچھ بھی محفوظ نہیں ہے اس جنگ بندی سے جنگ میں ٹھہراؤ تو کم وقت کے لیے آئے گا مگر یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے اس لیے ضروری ہے کہ تمام اسلامی ممالک اور عالمی برادری، اقوام متحدہ سمیت دیگر فورمز کی ذمہ داری بنتی ہے کہ مستقل جنگ بندی اور مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں تاکہ مستقبل قریب میں یہ جنگ دوبارہ سر نہ اٹھائے۔