پاکستان میں جو بھی بحرانات پیدا ہوئے اور آج جن چیلنجز اور مسائل کا ملک شکار ہے
اس کی ذمہ داری کوئی بھی لینے کو تیار نہیں
اور نہ ہی کبھی اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ ہم سے کوتاہی اور غفلت ہوئی، ہم نے ملکی معیشت کو اپنے پاؤں پرکھڑا کرنے اور تجارت کو وسعت دینے کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ ہمارے سامنے بیسیوئوں مثالیں موجود ہیں کہ بیرونی سرمایہ کاری اور دیگر منصوبوں پر عدم دلچسپی بہت سے ادوار میں دیکھی گئی جس طرح پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ آج تک تعطل کا شکار ہے کیوں اس منصوبے میں دلچسپی نہیں لی گئی اس کے اصل محرکات اور حقائق کو کبھی سامنے نہیں لایاجاتا کہ عالمی دباؤ رہتا ہے حکومت کو خطرات لاحق ہوتے ہیں
حالانکہ ایران پرپابندی کے باوجود بھی بھارت سمیت دیگر ممالک چاہ بہار پورٹ پر سرمایہ کاری کررہے ہیں ،ایران اربوں ڈالر منافع کمارہا ہے اب بھی ایران بلوچستان کے ضلع کیچ میں بجلی فراہم کررہا ہے جبکہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو گوادر تک لایا گیا ہے مگر یہاں سے پیشرفت نہ ہونے کی وجوہات دباؤ ہیں مگر پوری دنیا اپنے معاشی، سیاسی،
سفارتی، سماجی مفادات پر توجہ دیتی ہے یقینا کسی جگہ پر مسائل درپیش ہوتے ہیں مگر مکمل طور پر دباؤ میں آنا اور اپنی معیشت کو بہتر نہ کرنا غیرذمہ دارانہ رویہ ہے۔
آج پاکستان آئی ایم ایف کی ہدایات پر چل رہا ہے آئے روز مہنگائی بڑھتی جارہی ہے کبھی بجلی کی قیمتوںمیںاضافہ، گیس کی قیمتوں میںاضافہ، ٹیکسز کی بھرمار ،عوام پر بوجھ ،کاروباری طبقہ پریشان کسی کوئی ریلیف میسر نہیں، کب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیںاضافہ ہوجائے کچھ کہانہیں جاسکتا جبکہ ڈالر بھی اب تک قابومیں نہیںآسکا ہے روپے کی قدر کم ہوکر رہ گئی ہے جبکہ ہمارے پڑوسی ممالک کی کرنسی مستحکم ہوتی جارہی ہے
آج ان کی تجارت کا حجم ہم سے بہت زیادہ ہے ہم بہت پیچھے ہیں ہمارا بجٹ ہی خسارے کا ہوتا ہے کیونکہ اس کی وجہ پرائیویٹ سیکٹرکا نہ ہونا ہے ،جب سرمایہ کاری نہیں ہوگی تو انڈسٹریزنہیں لگیں گی ، بجلی گھر نہیں بن سکیں گے ، شاہراہیں تعمیر نہیں ہوں گی، مواصلات کا نظام بعض علاقوں میں نہیں، پانی کے بڑے منصوبے نہیں چونکہ ڈیمز بنانے کیلئے رقم موجود نہیں، میگامنصوبوں پر ہوم ورک اس لئے نہیںکیاجاتا چونکہ وسائل محدود ہیں اور انہی سے ملک کو چلانا ہے ۔روایتی انداز سے ملکی معیشت اب مزید نہیں چل سکتی جب تک ملک میںپیداواری صلاحیت کو بڑھایانہیں جاتا ملکی مصنوعات کی عالمی منڈی تک رسائی سے لیکر دیگرممالک سے براہ راست تجارت نہیں ہوگی
تب تک ملکی معیشت لڑکھڑاتی رہے گی اور قرض پر ہی ملک چلتا رہے گا۔ بہرحال اب عام انتخابات کا موسم ہے تو تمام بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ادوار کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں جبکہ اپنے دور کی تعریفوں کے پُل باندھ رہے ہیں اگر ملکی ترقی کسی دور میںتیز رفتاری سے ہورہی ہوتی
اور ایک ہدف کو سامنے رکھ کر اس کی جانب تندہی کے ساتھ بڑھا جاتا تو ملکی معیشت آج زوال پذیر نہ ہوتی ،اس کا اعتراف سب کو کرنا چاہئے کہ ہماری توجہ معیشت پر کم بلکہ انتقامی سیاست پر زیادہ رہی ہے جبکہ ہمارے یہاں حکمرانی کا طرز بھی الگ ہے وزراء اور مشیروں کی تعداد غیرمعمولی ہوتی ہے جس کی نظیر دنیا کے دیگر ممالک میں نہیں ملتی، اتنے اخراجات تو صرف انہی کے اٹھانے پڑتے ہیں تو کس طرح سے ملک ترقی کرسکتا ہے تمام چیزیں مفت وزراء اور مشیران کو ملتی ہے ۔ان شاہانہ پروٹوکول کے ساتھ غریب ممالک ترقی نہیں کرسکتے بلکہ مزید تباہی کی طرف جاتے ہیں ۔امید کرتے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں اس طرز کو نہیں اپنایاجائے گا اور معیشت کی بہتری کیلئے ایک لانگ ٹرم پالیسی اپنائی جائے گی تاکہ ملک ہر تین سال بعد ڈیفالٹ تک نہ پہنچے۔