|

وقتِ اشاعت :   November 27 – 2023

کراچی کے شاپنگ مال میں 11 قیمتی زندگیوں کا چراغ گل کرنے والی خوفناک آتشزدگی کے واقعے کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔

کراچی کے علاقے راشد منہاس روڈ پر واقع نجی شاپنگ مال میں ہفتے کی صبح آگ لگی، سرکار کی مدعیت میں درج ہونے والے مقدمے میں مال انتظامیہ، بلڈر، نقشہ منظور کرنے والے افسر اور فائربریگیڈ کے ساتھ کے الیکٹرک کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔

مقدمے میں قتل بالسبب، لاپرواہی اور نقصان رسانی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ایف آئی آر کے مطابق عمارت کا نقشہ غیر قانونی طریقے سے منظور کیا گیا،

عمارت میں آگ بجھانے کے آلات اور ہنگامی اخراج کا راستہ بھی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ کے الیکٹرک اور فائر بریگیڈ نے ناقص میٹریل کے باوجود این او سی جاری کیا، اسی لیے انہیں بھی مقدمے میں نامزد کیا گیا۔دوسری جانب ایڈیشنل آئی جی کراچی خادم حسین رند نے راشد منہاس روڈ پر واقع شاپنگ مال میں لگنے والی آگ کے واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کر دی۔کراچی کے شاپنگ مال میں 11 افراد کی زندگیاں نگلنے والی آگ کیسے بھڑکی، عمارت میں پھنسے افراد کو کیوں نہ نکالا جا سکا؟

قیمتی جانیں ضائع ہونے کا ذمہ دار کون ہے؟

اب ان سب سوالوں کے جواب کمیٹی تحقیقات کے بعد دے گی۔ چیف فائر آفیسر کا کہنا ہے کہ جنریٹر سے آگ پھیلنے کی اطلاع درست نہیں، ہفتہ کی صبح آگ لگنے کے وقت شاپنگ سینٹر میں صرف چوتھے فلور پر بجلی استعمال کی جارہی تھی جہاں سوفٹ ہاؤس اور کال سینٹرز موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ دیگر منزلوں پربجلی کی فراہمی بند تھی، ریسکیو حکام نے عمارت میں ہنگامی اخراج نہ ہونے کی نشاندہی کی ہے۔

واضح رہے کہ راشد منہاس روڈ پر قائم شاپنگ سینٹر میں آگ کے باعث اب تک 11 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے۔جناح اسپتال کے حکام کے مطابق 9 میتوں کو جناح اسپتال جبکہ ایک سول اور ایک کو عباسی شہید اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔

ڈپٹی ڈائریکٹر شعبہ حادثات جناح اسپتال کابتانا ہے کہ جاں بحق اورزخمی ہونے والے تمام مرد ہی ہیں جن کی عمریں 22 سے 43 سال تک ہیں۔ بہرحال ملک بھر میں شاپنگ مال ہوں یا پھر بلند وبالا رہائشی عمارتیں ان کے نقشے رشوت کے عوض پاس کئے جاتے ہیں کوئی قانونی تقاضہ پورا نہیں کیاجاتا جس کی واضح مثال ملک بھر کے بڑے شہروں میں پلازے، رہائشی عمارتوں کی بھرمارہے اس گھناؤنے عمل میں بڑے آفیسران ملوث ہیں اب کراچی میں ہونے والے سانحہ کے بعد ایک کمیٹی بنادی گئی

ہے جس کے بعد معاملہ حسب روایت سرد خانے کی نذر ہوجائے گا اس سے قبل بھی جیل چورنگی کے قریب ایک شاپنگ مال پر آگ لگی تھی

جس سے نقصانات ہوئے تھے اس کی تحقیقات کہاں تک پہنچی؟ آگ کیسے لگی؟ اخراج کا راستہ نہیں تھا؟ نقشہ کس طرح پاس کرایاگیا؟ کچھ بھی سامنے نہیں آیا وقتی طور پر سب بیانات دیتے ہیں

اور تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دی جاتی ہے مگر اس کے بعد نتیجہ صفر ہی نکلتا ہے پھر یہی مافیاز شہر بھر میں بڑی بڑی عمارتیں بنانے میں پھرمصروف ہوجاتی ہیں۔

المیہ تو یہ ہے کہ کراچی شہر کی تنگ گلیوں اور شاہراہوں پر رہائشی عمارتیں دھڑادھڑ بن رہی ہیں ایس بی سی اے کی جانب سے ایک عملہ آکر کارروائی کرتا ہے

عمارت پر جاری کام کو روک دیتا ہے پھر کچھ لو کچھ دو کی بنیادپر دوبارہ عمارت کی تعمیرشروع ہو جاتی ہے،

یہ ایک دھندہ بن چکا ہے۔ بہرحال گزشتہ روز جوہر موڑ پر شاپنگ مال میں لگنے والی آگ میں 11افرادکی قیمتی جانوں کا حساب اعلیٰ عدلیہ کو لینا چاہئے اور اس کے ساتھ ہی بڑی عمارتیں جو غیرقانونی طور پر تعمیر ہورہی ہیں اس حوالے سے سپریم کورٹ کا ایکشن لینا ضروری ہے تاکہ اس قسم کے حادثات دوبارہ رونما نہ ہوں۔