گزشتہ ہفتوں کے دوران بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ میں مرکزی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے قائدین نے ڈیرے ڈال دیئے تھے،
ن لیگ کے سربراہ میاں محمد شہباز شریف کی قیادت میں پارٹی قائدین کی تمام تر سیاسی سرگرمیاں ایک مقامی ہوٹل کے بند کمروں تک محدود رہیں، ن لیگی قائدین نے اس دوران صرف مخصوص جماعتوں کے رہنماؤں، سابقہ اتحادی نیشنل پارٹی، پشتونخواہ میپ اور باپ کے قائدین سے ملاقاتیں کیں جبکہ چند الیکٹیبلز نے بھی ن لیگ میں شمولیت اختیار کی
اور شہ سرخیاں بننے لگیں کہ ن لیگی قائدین نے آئندہ آنے والے انتخابات کے حوالے سے بلوچستان میں پیشگی معرکہ مار لیا ہے اور بآسانی بلوچستان میں ن لیگ اتحادیوں کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔سب سے دلچسپ اور توجہ طلب معاملہ اس پورے دورانیہ میں یہ رہا کہ ن لیگ کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے کوئٹہ کا دورہ اس وقت کیا جب نواز شریف لندن میں تھے اور پی ڈی ایم نے پاور شو کا مظاہرہ بھی کیا،ن لیگ نے اپنے ہی سابقہ اہم رہنماء اور وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری کو نظر انداز کیا۔
انہیں پی ڈی ایم جلسے کی اسٹیج تک رسائی نہیں دی گئی جس سے اس وقت کی ن لیگ کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چیف آرگنائزر مسلم لیگ ن مریم نواز نے بی این پی کے سربراہ کے ساتھ بہت ہی سیاسی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا۔ ن لیگ بلوچستان کے سابقہ قائدین کیوں نالاں ہوئے تمام تر اندرونی کہانی سے کوئٹہ کے صحافی بخوبی واقف ہیں۔
نواب ثناء اللہ زہری، جنرل (ر) عبدالقادر بلوچئے اور یہ فیصلہ تونوشتہ دیوار تھا کہ نواب ثناء اللہ زہری اور جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ ن لیگ سے اپنی رائیں جدا کرینگے اور یہی ہو ابھی،انہوں نے اپنے کارکنان کے ہجوم کے ساتھ میڈیا کے سامنے ن لیگی قائدین کی روش کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ن لیگ سے علیحدگی کا اعلان کیا۔
جبکہ حالیہ مسلم لیگ ن کے دورہ کوئٹہ کے دوران بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل زیر بحث ہی نہ آئے اور نہ ہی ملاقات ہوئی حالانکہ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ پی ڈی ایم جلسے کے دوران سردار اختر مینگل نمایاں دکھائی دیئے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان سیاسی ہم آہنگی بھی واضح تھی مریم نواز کے دورے کے چند دن بعد سردار اختر مینگل نے جاتی امراء کا خصوصی دورہ کیا،مریم نواز کے ساتھ اہم بیٹھک لگائی سیاسی منظر نامہ اس طرح دکھائی دے رہا تھا
کہ اب نیشنل پارٹی اور پشتونخواہ میپ کی جگہ بی این پی نے لے لی ہے۔ بلوچستان میں مخلوط حکومت اور اتحادیوں کے حوالے سے بی این پی کا مرکزی کردار ہوگا مگر سیاست تو سیاست ہے وقت کے ساتھ ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں جو ن لیگی قائدین کے دورہ کوئٹہ میں نظر آئیں کہ سردار اختر مینگل
یا ان کی جماعت کا کوئی بھی نمائندہ ن لیگی قائدین سے ملاقات کیلئے نہیں آیا۔ بہرحال سیاسی کھیل کے دوران کب کون کس طرح سے اپنا گیم برابر کرتا ہے
یہ وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا چونکہ نظریاتی سیاست ہے نہیں، مفادات اور پارٹی پوزیشن کی مضبوطی اہمیت رکھتی ہے، اس لئے اب ن لیگ کی ترجیحات بلوچستان میں کچھ اور ہیں،اس میں اہم جز ن لیگ کو بلوچستان میں نشستیں چاہئیں کوئی نظریاتی معرکہ نہیں مارنا، سیاست ایک گیم ہے
ہر جماعت وقت کے ساتھ اپنی بساط بچاتے ہوئے اسے نیا رخ دیتا ہے جس طرح پاکستان پیپلز پارٹی نے کوئٹہ میں جب یوم تاسیس کے دوران سیاسی انٹری ماری تو رائے عامہ بھی بدلنے لگا ہے
اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کے قائدین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے ہوٹل کے بند کمروں میں سیاسی سرگرمیوں کو محدود نہیں رکھا،ایوب اسٹیڈیم میں جلسہ کیا ملک بھر سے پیپلز پارٹی کے جیالے بھی آئے سیاسی ماحول اور عوام کے ہجوم نے سیاسی درجہ حرارت کو مزید بڑھادیا۔ پیپلز پارٹی قائدین کی جانب سے تین روز کے دوران ہردن دو سے تین بار پریس کانفرنسز ہوتی رہیں، میڈیا کے ساتھ جڑے رہے اور اس کے ساتھ پیپلز پارٹی کے قائدین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی بلوچستان کے قائدین کے ساتھ تمام تر سیاسی سرگرمیوں کو چلاتے رہے۔
ورکرز کنونشن کا بھی انعقاد کیا گیا،لیڈر شپ اور کارکنان کے درمیان کوئی خلیج نہیں رہی، عشائیہ بھی چلتے رہے۔ اگر کہا جائے کہ پیپلز پارٹی قائدین کا دورہ مکمل سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ جاری رہا تو غلط نہیں ہوگا۔ بلاول بھٹو زرداری نے وکلاء کے کانفرنس میں بھی شرکت کی یعنی انہوں نے ایک مکمل سیاسی دورہ کیا اور یہاں سے روانہ ہوئے جو ایک ہوٹل کے چند کمروں تک محدود نہیں رہا۔
پیپلز پارٹی میں بھی مختلف شخصیات نے شمولیت کی جن میں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو بھی شامل ہیں۔ ان تمام تر سرگرمیوں کے بعد اب یہ بھی اطلاعات ہیں کہ مزید اہم شخصیات کی پیپلز پارٹی میں شمولیت متوقع ہے اب تجزیاتی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان میں مخلوط حکومت بنانے کی دوڑ میں شامل ہوگیا ہے ن لیگ اور اس کے اتحادیوں کو ٹف ٹائم پیپلز پارٹی ممکنہ طور پر دے سکتی ہے۔