پاکستان میں عام انتخابات کے بعد نئی بننے والی حکومت کو معاشی چیلنجز کا سامنا تو ہوگا
مگر اس کے ساتھ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عملدرآمدبھی لازمی کرنا ہوگا ۔چونکہ ماضی میں پی ٹی آئی نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو اس کے بعد ملک بدترین معاشی حالات کا شکار ہوگیا،
ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا تھا البتہ اس کے بعد پی ڈی ایم اور اس کی اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ طویل مذاکرات کئے جس کے بعد پیش رفت ہوئی اور آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ معاہدوں کے حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کی
اور اس بات کی گارنٹی لی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر ہر صورت عمل کیاجائے گا تب جاکر آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض دینا شروع کردیا یقینا آئی ایم ایف نے سخت شرائط بھی عائدکئے
جس کی وجہ سے مہنگائی سمیت دیگر سخت فیصلے کئے گئے۔
اب ملک میں عام انتخابات میں نئی حکومت اس تسلسل کو لازم جاری رکھے گا البتہ اس کے باوجود بھی عالمی بینک نے نئی حکومت کے متعلق چند خدشات کا اظہار کیا ہے جس کی عالمی بینک نے اصلاحاتی پروگرام رائزٹو سے متعلق رپورٹ جاری کردی ہے۔عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں الیکشن کے بعد نئی حکومت متعدد اقدامات واپس لے سکتی ہے،
منظم مفاد پرست طبقہ تیزی سے ضروری اصلاحات کو واپس لے سکتا ہے، منظم مفاد پرست طبقے کے مفاد کی وجہ سے اسٹیک ہولڈرز کو خطرات زیادہ ہیں، نئی حکومت گیس، توانائی اور ٹیکس سے متعلق اقدامات ختم کرسکتی ہے جب کہ سبسڈی،
تجارتی ٹیرف اور جائیدادوں پر ٹیکس وصولی بھی ختم ہوسکتی ہے۔
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ مستقبل کی حکومت کی طرف سے بنیادی اصلاحات اور ترجیحات کا علم نہیں، آئندہ الیکشن کے بعد سیاسی دباؤ کی وجہ سے گورننس کو خطرات بہت زیادہ ہیں، سیاسی وجوہات کی بنا پر مالی پابندیاں ختم ہوسکتی ہیں،
مشکل اصلاحات پر عملدرآمد جاری رکھنے کا وعدہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹینڈ بائی معاہدے کے خاتمے کے خطرات زیادہ ہیں، اسٹینڈ بائی معاہدے کے اختتام پرپاکستان کے ذخائرڈیڑھ ماہ کی درآمدات کے برابر ہوں گے جب کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ختم ہونے کے بعد اضافی بیرونی مدد درکار ہوگی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اہم عہدوں پر تواترسے تبدیلی سے عملدرآمد کی صلاحیت اورپائیداری خطرے میں ہے، زرعی شعبے میں غلط پالیسیوں اور صوبوں کو منتقل شعبوں میں اخراجات کا خاتمہ ضروری ہے،
وفاقی حکومت کی طرف سے صوبائی ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات کا خاتمہ بھی ضروری ہے، زراعت،چھوٹے تاجروں اور رئیل اسٹیٹ کو ٹیکس نیٹ میں لاکرٹیکس کا دائرہ کاربڑھانا ہوگا، توانائی کی تقسیم کے شعبے میں لاگت اور نقصانات کم کرنے کیلئے اصلاحات ضروری ہیں۔عالمی بینک کا کہنا ہے کہ نجکاری کے ذریعے ریاستی اداروں کے نقصانات میں کمی کرنا ہوگی،
سرخ فیتے کے اختیارات کم کرکے سرمایہ کاری کا ماحول آسان بنانا ہوگا، جامع اصلاحات کے بغیر بیرونی سرمایہ میں کمی رہے گی، بیرونی ذخائر برقرار رکھنے کیلئے درآمدات پرپابندی متوقع ہے جس سے معاشی کارکردگی متاثر ہوگی
جب کہ مثبت چیزیہ ہے کہ سیاسی منظرنامے پر مالی مینجمنٹ کیلئے مدد موجود ہے، مثبت چیزیہ ہے کہ سیاسی منظرنامے پرریونیو میں اصلاحات کیلئے مدد موجود ہے۔عالمی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر پاکستان کی مدد جاری رکھیں گے، مالی استحکام اور سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔
بہرحال پاکستان میں نئی بننے والی حکومت کوئی بھی ایسا اقدام نہیں اٹھائے گی جس سے آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر اثر پڑے بلکہ تسلسل کے ساتھ معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنایاجائے گا چونکہ پی ڈی ایم اور اس کی اتحادی حکومت میں سے ایک مخلوط حکومت بنے گی جس نے پہلے سے ہی آئی ایم ایف کو اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے
کہ آئی ایم ایف پاکستان کو مالی مدد فراہم کرے تاکہ مالی بحران سے نکلاجاسکے معاہدے کو ہر صورت مکمل کیاجائے گا مگر نئی حکومت کو مستقبل میں ملک میں معاشی اصلاحات ضرور لانی ہوںگی تاکہ بیرونی قرض سے جان چھڑایاجاسکے اور عوام کو مزید ٹیکس کا بوجھ سمیت مہنگائی کا سامنانہیں کرناپڑے۔