|

وقتِ اشاعت :   January 4 – 2024

ملک میں عام انتخابات سر پر ہیں سیاسی جماعتوں کے سربراہان پر تاحیات نااہلی کا کیس بھی چل رہا ہے اگر تاحیات نااہلی برقرار رہتی ہے تو ن لیگ کے سربراہ نواز شریف سمیت اہم سیاسی شخصیات الیکشن میں حصہ نہیں لینگی البتہ یہ ماضی کے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے ہیں

اور اب یہی کیس موجودہ اعلیٰ عدلیہ میں بھی چل رہا ہے اس کا حتمی فیصلہ کیا ہوگا یہ کہنا قبل ازوقت ہے مگر سیاسی جماعتوں کی خواہش ہے کہ تاحیات نااہلی کو ایک مدت کی سزا تک رہنا چاہئے سزا ختم ہونے کے بعد انہیں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہئے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی سے متعلق سوال پر ریمارکس دئیے کہ اگر الیکشن کمیشن تاحیات نااہل کر سکتا ہے تو اختیار سپریم کورٹ کے پاس بھی ہو گا۔

سیاستدانوں کی نااہلی سے متعلق الیکشن ایکٹ چلے گا یا سپریم کورٹ کا فیصلہ؟ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کے کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ 62 ون ایف کے تحت سیاستدانوں کی نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل،

جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی لارجر بینچ کا حصہ ہیں، درخواست گزار فیاض احمد غوری اور سجادالحسن کے وکیل خرم رضا نے عدالتی دائرہ اختیار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ یہ کیس کس دائرہ اختیار پر سن رہی ہے؟

کیا آرٹیکل187 کے تحت اپیلیں ایک ساتھ سماعت کیلئے مقررکی گئیں۔چیف جسٹس پاکستان نے وکیل خرم رضا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی درخواست تک محدود رہیں، جس پر خرم رضا کا کہنا تھا عدالت مقدمے کی کارروائی 184/3 میں چلا رہی ہے یا 187 کے تحت؟ آرٹیکل 62 میں کورٹ آف لا کی تعریف نہیں بتائی گئی۔

وکیل خرم رضا نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کی ڈکلیئریشن دینے کا اختیار الیکشن ٹربیونل کا ہے، آرٹیکل 62 ون ایف میں کورٹ آف لا درج ہے سپریم کورٹ نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا بہتر ہوگا ہمیں الیکشن ٹربیونل کے اختیارات کی طرف نہ لے کر جائیں، آرٹیکل 62 ون ایف کورٹ آف لا کی بات کرتا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا آرٹیکل 99 ہائیکورٹ کو آرٹیکل 184/3 سپریم کورٹ کو ایک اختیار دیتا ہے، سوال یہ ہے کیا آرٹیکل 62 ون ایف سپریم کورٹ کو کوئی اختیار دیتا ہے؟

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا ٹربیونل کے فیصلے کیخلاف کیس سپریم کورٹ اپیل کے دائرہ اختیارمیں سنتی ہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا درست، لیکن کیا 62 ون ایف ٹربیونل کو بھی تاحیات نااہلی کا اختیار دیتا ہے؟ یا تاحیات نااہلی کا یہ اختیار سیدھا سپریم کورٹ کے پاس ہے؟

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا آئینی عدالت اور سول کورٹ میں فرق کو نظر انداز نہیں کر سکتے، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ آئینی عدالتیں ہیں جہاں آئینی درخواستیں دائرہوتی ہیں، الیکشن کمیشن قانون کے تحت اختیارات استعمال کرتا ہے، اگر الیکشن کمیشن تاحیات نااہل کرسکتا ہے تواختیار سپریم کورٹ کے پاس بھی ہوگا۔

بہرحال کیس کا جلد فیصلہ متوقع ہے مگر اس بات پر سب متفق ہیں کہ تاحیات نااہلی نہیں ہونی چاہئے اس کی ایک مدت طے ہونی چاہئے تاکہ سیاستدان سیاست سے دور نہ رہ سکیں۔ بہرحال یہ ضرور ہونا چاہئے کہ ملک کے ساتھ بڑا فراڈ کسی صورت قابل قبول نہیں ہونا چاہئے ناانصافیوں کا ازالہ ضرور ہو مگر سزا و جزا کا عمل بھی ہونا چاہئے تاکہ پارلیمنٹ جیسے مقدس ادارے میں ایماندار سیاستدان ہوں جو ملکی مسائل اور عوامی مفاد عامہ کیلئے اپنا کردار ادا کریں جس کیلئے عوام اپنی رائے سے انہیں منتخب کرکے ایوانوں تک پہنچاتی ہے۔