سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کے حوالے سے سپریم کورٹ نے بڑافیصلہ سنادیا،
جس بڑی عدالت نے تاحیات نااہلی کا فیصلہ دیا تھا اسی عدالت نے سیاستدانوں کو بڑا ریلیف دیا۔
عدل کا نظام آئین اور قانون کے مطابق ہونا ضروری ہے کوئی بھی فرد واحد اپنی طرف سے آئین کی تشریح کرکے کسی کے خلاف کوئی بھی اقدام اٹھانے سے گریز کرے
کیونکہ اس کے اثرات انتہائی منفی پڑتے ہیں۔ سابق سپریم کورٹ کے ججوں کے فیصلوں سے یقینا غلط تاثر گیا اورمبینہ طور پر یہ الزام ن لیگ سمیت دیگر سیاسی جماعتیں لگاتی رہی ہیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے پی ٹی آئی کو ذاتی طور پر فائدہ پہنچانے کی کوشش کی
جبکہ دیگر جماعتوں کے خلاف سخت گیر مؤقف رکھتے تھے جو کہ غیر مناسب رویہ ہے۔ اب جو فیصلے ماضی میں غلط کئے گئے ان کی تصحیح کی جارہی ہے
تو سابق ججوں کی شخصیت بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ بہرحال سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کا فیصلہ سناتے ہوئے تاحیات نااہلی ختم کر دی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مختصر فیصلہ سنایا۔ فیصلے میں سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی ختم کر دی
اور یہ فیصلہ 6 ایک کی اکثریت سے سنایا گیا۔عدالت نے سمیع اللہ بلوچ نااہلی کیس کے فیصلے کو ختم کردیا۔سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ سیاستدانوں کی نااہلی تاحیات نہیں ہوگی
۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ کے تحت نااہلی کی مدت 5 سال تک ہے، نااہلی کی مدت کے قانون کو جانچنے کی ضرورت نہیں، 62 ون ایف کی تشریح عدالتی ڈیکلریشن کے ذریعے آئین کو ریڈ ان کرنا ہے، ڈیکلریشن دینے کے حوالے سے قانون کا کوئی پراسس موجود نہیں۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے سے اختلاف کیا اور کہا کہ 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات بھی نہیں ہے، نااہلی عدالتی فیصلہ موجود ہونے تک ہے،
سمیع اللہ بلوچ فیصلہ درست تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد ضروری تھاکہ یہ فیصلہ فوری سنایا جاتا، تمام وکلاء اور اٹارنی جنرل کے آنے کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔واضح رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی ۔
تاحیات نا اہلی کیس کا فیصلہ 5 جنوری کو محفوظ کیاگیا تھا۔کیس میں اہم ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ
پورا پاکستان 5 سال نااہلی کے مدت کے قانون سے خوش ہے،5 جینٹل مین کی دانش 326 کی پارلیمان پر کیسے غالب آ سکتی ہے، پارلیمنٹ کے فیصلے کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے، آئین میں کہاں لکھا ہے کہ نااہلی کی سزا تاحیات ہو گی، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جب موڈ میں ہوں تو تاحیات نااہل کر دیں اور جب موڈ نہیں ہے تو نااہلی ختم کر دیں۔پارلیمنٹ نے مدت نہیں لکھی تو نا اہلی تاحیات کیوں؟ تاحیات نااہل کرنااسلام کے خلاف ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین کی نااہلی ختم ہوگئی ہے۔
خیال رہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کی شق کے تحت 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو پاناما پیپرز کیس میں نااہل قرار دیا تھا۔اسی طرح 15 دسمبر2017 کو اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو بھی سپریم کورٹ کے ایک الگ بینچ نے اسی شق کے تحت نااہل قرار دیا تھا۔فیصلے کے بعد نواز شریف اور جہانگیر ترین دونوں کو عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نااہل قرار دیا گیا تھا۔
اب نواز شریف اور جہانگیر ترین عام انتخابات میں حصہ لینگے ان کے لیے راستہ کھل گیا ہے مگر انصاف بہت دیر سے ہوئی ،ایک چلتی حکومت کرادی گئی جس سے جمہوریت کوبہت نقصان پہنچا اس کا ازالہ تو نہیں ہوسکتا مگر مستقبل میں اس طرح کے فیصلے ذاتی یاگروہی مفادات کے طور پر نہیں ہونے چاہئیں جس سے ملک اورجمہوریت کو نقصان پہنچے کیونکہ اس کے منفی اثرات سیاست اور معیشت دونوں پر پڑتے ہیں۔