بلوچستان کے ضلع تربت میں بالاچ مولا بخش نامی نوجوان کے مبینہ ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف احتجاج کانیاسلسلہ شروع ہوگیا ہے۔اس احتجاج کا آغاز تقریباً 45 روز قبل بلوچستان کے سرحدی ضلع تربت سے بالاچ مولا بخش نامی ایک نوجوان کے ماورائے عدالت قتل کے بعد ہوا،
جو اب تک اسلام آباد سمیت بلوچستان کے مختلف شہروں میں جاری ہے۔متاثرین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دھرنے کے 46 ویں روز مطالبات تسلیم نہ کرنے پر تربت کے زیرو گراؤنڈ سے احتجاج کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔اس سلسلے میں گزشتہ روز تربت سمیت مختلف علاقوں میں ریلیاں نکالی گئیں جبکہ کراچی میں بھی احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ۔احتجاجی ریلی میں خواتین، بچوں، جبری گمشدگی اور مبینہ طور پر ماورائے عدالت قتل کیے گئے افراد کے لواحقین سمیت عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔احتجاجی ریلی سے خطاب میں مظاہرین نے کہا کہ بلوچ قوم گزشتہ سات دہائیوں سے مظالم کا سامنا کررہی ہے اور بلوچستان کے ہر علاقے میں تقریباً ہر ایک گھر متاثر ہے۔
اس سے قبل بھی بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے احتجاج اور عوامی تحریکیں چلتی رہی ہیں۔ مگر موجودہ احتجاج اور دھرنے کے چند ایک منفرد پہلو ہیں جن میں سب سے نمایاں یہ ہے کہ یہ تحریک نما احتجاج زیادہ منظم ہے اور اس کی قیادت خواتین اور بچے کر رہے ہیں۔
اس سے قبل بلوچستان میں اس طرح کے سیاسی نوعیت کے احتجاجوں کی قیادت مرد کیا کرتے تھے اور ان میں خواتین بطور شرکاء شامل ہوتی تھیں لیکن اس مرتبہ تحریک میں خواتین بطور لیڈر آگے آگے ہیں جس کی وجہ سے اس تحریک کو ملک بھر میں زیادہ پذیرائی مل رہی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے احتجاجی تحریک کا آغاز اس وقت ہوا جب تربت میںسی ٹی ڈی کے اہلکاروں کی طرف سے نومبر 2023 میں کیے گئے ایک متنازع آپریشن میں مارے گئے نوجوان بالاچ مولا بخش کے اہل خانہ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی نے واقعے کی عدالتی تحقیقات نہ ہونے تک دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا ۔
لواحقین کے مطابق بالاچ مولا بخش تربت شہر کی ایک مارکیٹ میں سلائی کے پیشے سے وابستہ تھے۔دوسری جانب سی ٹی ڈی بلوچستان نے ماورائے عدالت قتل کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشت گرد بالاچ متعدد معصوم افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھا۔
سی ٹی ڈی کے مطابق 20 نومبر کو انتہائی مطلوب دہشت گرد بالاچ ولد مولا بخش کی گرفتاری کے وقت ان سے پانچ کلوگرام بارودی مواد بھی برآمد ہوا تھا، جو تربت میں دہشت گرد کارروائیوں میں استعمال ہونا تھاتاہم بالاچ کے لواحقین نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہیں 20 نومبر کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا اور 10 دن کا ریمانڈ بھی حاصل کیا گیا تھا۔
بعدازاں ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں بالاچ بلوچ کے جنازے کے بعد ان کے لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی نے لانگ مارچ کا آغاز کیا اور تربت سے ہوتے ہوئے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں لاپتہ افراد کا اندراج کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچا۔
تاہم وفاقی دارالحکومت میں مارچ کے شرکاء کے لیے تمام داخلی راستوں کو بند کر دیا گیا اور مظاہرین پر لاٹھی چارج کرکے بیشتر کو گرفتار کیا گیا، جنہیں آہستہ آہستہ ضمانت پر رہا کیا گیا۔بہرحال بلوچستان کے مسائل میں لاپتہ افرادکا معاملہ کا فی حساس ہے جس کوحل کرنا انتہائی ضروری ہے اس کے لیے ریاست کو مرکزی کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ مسئلے کا حل اسی کے پاس ہے ۔ لاپتہ افراد کے معاملے کو پروپگینڈا کہہ کر اس نے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بلوچستان کے لوگوں نے اپنے پیاروں کے لاپتہ ہونے کا درد سہا ہے اور وہی اس کے گواہ بھی ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے پہلے بلوچ یکجہتی کمیٹی دھرنا کے شرکاء جو اسلام آباد میںموجود ہیں ان سے مذاکرات کا آغاز کیا جائے تاکہ کسی نہ کسی پوائنٹ پر آکر معاملے کو آگے بڑھانے کا موقع مل سکے۔
بلوچستان کے شکوے اور گلے دور کرنے کی ضرورت ہے مرہم رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ آج ریاست کا رویہ ہی یہ طے کرے گا کہ وہ اس مسئلے کو کس طرح حل کرناچاہتا ہے ۔