ملک میں عام انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے ایک بار پھر مختلف افواہیں بازگشت کر رہی ہیں کہ حال ہی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری عمر حمید نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا
جس کی وجہ صحت خرابی بتائی تھی اور گزشتہ روز الیکشن کمیشن میں تعیناتی اور تبادلے کئے گئے،ساتھ ہی نشان الاٹمنٹ کے معاملے پر الیکشن کمیشن کے بیان کولے کر مختلف تجزیے پیش کئے جارہے ہیں کہ الیکشن میں تاخیر کے خدشات ہیں جس کا اظہار اب خود الیکشن کمیشن کے بیان میں کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ 8فروری کو عام انتخابات کا فیصلہ پتھر پر لکیر ہے مگر جس طرح کے مسائل الیکشن کے قریب آتے ہی پیدا ہوتے جارہے ہیں یہ جمہوریت کے لیے کسی طورنیک شگون نہیں۔عام انتخابات نہ ہونے سے ایک بڑے سیاسی بحران کے ساتھ معاشی مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں،ایک منتخب حکومت کا ریاست کو چلانا انتہائی ضروری ہے جس سے درپیش مسائل اور چیلنجز سے نمٹا جاسکتا ہے اس کے بغیر کسی صورت ممکن نہیں ہے۔
بہرحال الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا ہے کہ انتخابی نشانات کی تبدیلی کا عمل جاری رہا تومتعلقہ حلقوں میں الیکشن ملتوی کرنے کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں رہے گا۔ ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابی نشان الاٹ ہونے کے بعد مختلف فورمز سے انتخابی نشان تبدیل کئے جا رہے ہیں،
الیکشن کمیشن انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کے بعد تینوں پرنٹنگ کارپوریشنز کو بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا آرڈر دے چکا ہے اور پرنٹنگ کا کام شروع ہو گیا ہے۔ترجمان الیکشن کا کہنا ہے کہ انتخابی نشان الاٹ ہونے کے بعد مختلف فورمز سے انتخابی نشان تبدیل کئے جا رہے ہیں
اگر اسی طرح انتخابی نشانات کی تبدیلی کا عمل جاری رہا تو اس سے ایک طرف تو الیکشن میں تاخیر کا خدشہ پیدا ہوگیاہے کیونکہ بیلٹ پیپر دوبارہ پرنٹ کروانا پڑیں گے جس کے لئے پہلے ہی وقت محدود ہے اور دوسری طرف جوا سپیشل کاغذ بیلٹ پیپرز کے لئے مہیا ہے، وہ بھی ضائع ہو جائے گا۔ترجمان الیکشن کمیشن کاکہناہے کہ 2018ء کے انتخابات میں 800 ٹن کاغذ بیلٹ پیپر کی چھپائی کے لیے استعمال ہوا تھا جبکہ اس بار 2024ء کے انتخابات میں 2070 ٹن کاغذ استعمال ہونے کا تخمینہ ہے،
اسی طرح 2018 کے انتخابات میں 11700 امیدواروں نے حصہ لیا تھا جبکہ اس بار 18059 امیدوار میدان میں ہیں۔2018 میں 220 ملین بیلٹ پیپرز چھپوائے گئے تھے جبکہ اس بار 260 ملین بیلٹ پیپرز چھپوائے جا رہے ہیں۔الیکشن کمیشن کے ترجمان نے کہا کہ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن میٹنگ کر رہا ہے کہ اس صورتحال سے کیسے نبردآزما ہوا جائے اور کمیشن کی طرف سے بار بار جو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ اب انتخابی نشان تبدیل نہ کئے جائیں،
ان پر کیسے عمل کرایا جائے۔ترجمان نے کہا کہ اس تجویز پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ اگر انتخابی نشانات کو تبدیل کرنے کا یہ سلسلہ نہ رکا تو ایسے انتخابی حلقوں میں الیکشن ملتوی کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہے گا۔دوسری جانب چیف الیکشن کمشنر نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری عمر حمید کا استعفیٰ منظور کرتے ہوئے ڈاکٹر سید آصف حسین کو ان کی جگہ
نیا سیکریٹری تعینات کردیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ایک اعلامیہ کے مطابق صوبائی الیکشن کمشنر بلوچستان اعجاز انور چوہان کو صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب تعینات کر دیا گیا ہے۔ محمد فرید آفریدی نئے صوبائی الیکشن کمشنر بلوچستان تعینات کردیئے گئے جو اس سے قبل الیکشن کمیشن سکریٹریٹ اسلام آباد میں بطور ڈائیریکٹر جرنل الیکشنز تعینات تھے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے تعیناتیاں معمول کی بات ہے
ان تبادلوں پر افواہیں پھیلانا کہ الیکشن تاخیر کا شکار ہونگے یہ سراسر غلط ہے جسے ملک کی سیاسی ومذہبی جماعتیں قبول نہیں کرینگی کیونکہ وہ پہلے سے ہی واضح کرچکی ہیں کہ عام انتخابات لازمی ہونی چاہئیں اور جس کے لئے ان کی تیاریاں بھی زور شور سے جاری ہیں۔ بہرحال الیکشن کا ہونا ملک کے لیے بہت ضروری ہے اب ملک بغیر کسی منتخب حکومت کے چل نہیں سکتا موجودہ حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ
انتخابات وقت پر ہوجائیں اور ایک نئی حکومت آکر ملکی معاملات کو چلائے جو سب کے مفاد میں ہے۔