کوئٹہ : وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا ہے کہ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس میں ضروری ترامیم کے لیے جلد قانون سازی کی جائے گی، بلدیاتی اداروں کو منصفانہ انداز میں ترقیاتی فنڈز کا اجراء کیا جائے گااور کسی بھی بلدیاتی ادارے کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دی جائے گی، اب تک صوبائی حکومت کے پاس بلدیاتی اداروں کی جانب سے فنڈز کی جو بھی ڈیمانڈ آئی ہے وہ فنڈز جاری کر دئیے گئے ہیں اور کسی بھی ڈیمانڈ کو روکا نہیں گیا، ہماری کوشش ہے کہ کسی کے ساتھ بھی ناانصافی نہ ہو۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بلوچستان کے شمالی اضلاع کے ڈسٹرکٹ چیئرمینوں کے ایک وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کیا، صوبائی وزراء ڈاکٹر حامد خان اچکزئی، نواب ایاز خان جوگیزئی، سردار مصطفی ترین، اراکین صوبائی اسمبلی سید لیاقت آغا، نصر اللہ زیرے، ولیم برکت، میئرکوئٹہ ڈاکٹر کلیم اللہ اور سیکریٹری خزانہ بھی اس موقع پر موجود تھے، وفد نے وزیراعلیٰ کو ان کے اضلاع کو فنڈز کی کمی کے حو الے سے درپیش مشکلات سے آگاہ کیا، وزیراعلیٰ کاکہنا تھا کہ ہم بلدیاتی اداروں کے استحکام کے ذریعے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی پر پختہ یقین رکھتے ہیں لہذا بلدیاتی اداروں کو فنڈز اور اختیارات کی فراہمی کو ہر صورت یقینی بنایا جائیگا، انہوں نے کہا کہ بلدیاتی نمائندوں کو اپنے اپنے علاقوں میں سکولوں ،ہسپتالوں اور واٹر سپلائی اسکیموں کی نگرانی کے اختیارات دئیے گئے ہیں جنہیں استعمال کر کے وہ نچلی سطح پر عوامی مسائل کے حل میں اپنا موثر کردار ادا کر سکتے ہیں، وزیراعلیٰ نے وفد کو یقین دلایا کہ فنڈز کی فراہمی کے حوالے ان کے خدشات اور تحفظات کو دور کیا جائیگا۔وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری کی زیرصدارت منعقد ہونے والے اجلاس میں بلوچستان بورڈ آف انوسٹمنٹ کے وائس چیئرمین خواجہ ہمایوں نظامی نے صوبے میں زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی اور شمسی توانائی کے گھریلو استعمال کے منصوبوں کے حوالے سے بریفنگ دی، صوبائی وزراء نواب ایاز خان جوگیزئی، ڈاکٹر حامد خان اچکزئی، میر مجیب الرحمان محمد حسنی، عبدالرحیم زیارتوال، سردار مصطفی ترین، نواب محمد خان شاہوانی، رکن قومی اسمبلی عبدالقہار ودان ، سینیٹر سردار اعظم موسیٰ خیل، اراکین صوبائی اسمبلی سید لیاقت آغا، نصر اللہ زیرے ،ولیم برکت اور سیکریٹری خزانہ مشتاق احمد رئیسانی بھی اجلاس میں تھے، اجلاس میں اس بات سے اتفاق کیا گیا کہ زرعی ٹیوب ویلوں کو سبسڈی کی مد میں دی جانے والی خطیر رقم اور پانی کی بچت کے لیے شمسی توانائی کو بروئے کار لانا ضروری ہو چکا ہے، اجلاس میں محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی آبپاشی کی اسکیموں کو بھی شمسی توانائی پر منتقل کرنے کی منظوری دی گئی، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پانی کے بہتر استعمال کو یقینی بنانے اور اس کے ضیاع کو روکنے کے لیے جلد قانون سازی کی جائے گی، وائس چیئرمین بورڈ آف انوسٹمنٹ نے اجلاس کو بتایا کہ صوبے کو درپیش توانائی کے بحران کے حل کے لیے گھریلو صارفین کی بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے شمسی توانائی کے چھوٹے پلانٹ لگانے سے مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ہمارے صوبے کو اس وقت پانی اور بجلی کی کمی کے دو اہم مسائل درپیش ہیں، پانی کے بے دریغ زرعی استعمال سے زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے نیچے جا رہی ہے جبکہ زرعی ٹیوب ویلوں کے بلاضرورت چلائے جانے سے بجلی کے استعمال میں کئی گنا اصافہ ہوا ہے،اجلاس میں شمسی توانائی کے ذریعے 300فٹ، 600فٹ اور 1000فٹ تک کی گہرائی سے آزمائشی بنیادوں پر پانی نکالنے کے یونٹ نصب کرنے کی منظوری دی گئی ، اس حوالے سے وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی کے عمل میں زمینداروں کو بھی اعتماد میں لیا جائے، وائس چیئرمین نے اجلاس کو ماس ٹرانزٹ ٹرین سسٹم کے حوالے سے اب تک کی پیش رفت سے آگاہ کیا، منصوبے سے متعلق وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبائی حکومت منصوبے پر عملدرآمد کے لیے پاکستان ریلوے کے ساتھ معاہدہ کریگی اور کچلاک سے سپیزنڈ تک ریلوے لائن کی دونوں اطراف ریلوے اراضی کو پارکوں کی تعمیر کے لیے استعمال میں لایا جائیگا جس سے شہر کی خوبصورتی میں اضافہ ہوگا، اجلاس کو بلوچستان ریونیو اتھارٹی سے متعلق امور سے بھی آگاہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو سروسز اور گڈز کی مد میں ٹیکس کے حصول کا اختیار ملنے کے بعد بلوچستان میں بھی ریونیو اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا اور جولائی 2015سے ابتک اتھارٹی نے سروسز کی مد میں ایک ارب روپے سے زائد ٹیکسزوصول کئے ہیں۔