ملک کے مستقبل کے معمار تعلیم جیسے زیور سے آج بھی محروم ہیں،
کروڑوں کی تعداد میں بچے اسکولوں سے باہر ہیں جو کسی بھی ملک کیلئے سب سے بڑا المیہ اور مستقبل کیلئے چیلنج سے کم نہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں تعلیم سے محروم بچیمستقبل میں کیا کرینگے۔ منفی سرگرمیوں اور بدترین غربت کا شکار ہوکر معمولی اجرت پر مزدوری کرنے پر مجبور ہونگے،
ریاست کی سب سے بڑی ذمہ داری انسانی وسائل کو ترجیح دینا ہے، یہ رپورٹ ملک میں حکومت کرنے والی جماعتوں کی کارکردگی کی عکاسی کرتی ہے کہ انہوں نے انسانی وسائل کی ترقی کیلئے کیا اقدامات اٹھائے، اپنے انتخابی مہم کے دوران ان خامیوں پر توجہ دینے اور مستقبل کی پالیسی بنانے کے بجائے الزامات کا سہارا لے کر ساراملبہ اپنے مخالفین پر ڈال کر جان چھڑاتے ہیں،
یہ زحمت بھی نہیں کرتے کہ ان کے منشور میں انسانی وسائل کی ترقی کے لیے کیا تجاویز رکھی گئی ہیں اور ان پر کس حد تک عمل کیا گیا ہے لیکن افسوس کہ خاص کر بچوں کا اسکول میں داخلہ تمام سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ غذائی قلت کا جامع پروگرام پیش نہیں کرتے۔
پاکستان میں اسکول سے باہر بچوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن (پی آئی ای) کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 2 کروڑ 62 لاکھ کے قریب بچے اسکول سے باہر ہیں۔ پی آئی ای کے مطابق صرف صوبہ پنجاب میں ایک کروڑ 11 لاکھ سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں جبکہ سندھ میں 70 لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں، خیبرپختونخوا میں 36 لاکھ اور بلوچستان میں 31 لاکھ سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں،
اسلام آباد میں تقریباً 80 ہزار تعلیم سے محروم ہیں۔ اسکول جانے کی عمر کے 39 فیصد بچے اس وقت اسکول سے باہر ہیں، بلوچستان میں سب سے زیادہ 65 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ اس سے قبل 2016-17 میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 44 فیصد تھی، 2021-22 میں 39 فیصد بچے تعلیم سے محروم تھے، ہائرسیکنڈری سطح پر 2021-22 میں 60 فیصد بچے اسکول سے باہر تھے اور درمیانی اورپرائمری سطح پر 44 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔
اس سے قبل عالمی بینک نے ہیومن کیپٹل ری ویو ریسرچ رپورٹ کا اجراء کیا تھا، قائم مقام کنٹری ڈائریکٹر ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 30 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں اور پاکستان میں بڑی تعداد میں بچے غذائی قلت کا شکارہیں جب کہ پاکستان میں عورتوں کی بڑی تعداد کو ملازمت کے مواقع حاصل نہیں ہیں۔
یہ رپورٹس کسی سیاسی جماعت کی نہیں کہ اپنے مخالفین کو ہدف بنانے کیلئے شائع کئے ہیں بلکہ یہ وہ تلخ اور زمینی حقائق ہیں جو کبھی حکمرانوں کی ترجیح نہیں رہی جس کی وجہ سے معاشرتی اور سماجی مسائل پیدا ہورہے ہیں، اگر ملک کو خوشحال اور ترقی یافتہ بنانا ہے
تو تعلیم کواولین ترجیح دینا پڑے گانیز غذائی قلت جیسے سنگین مسئلے کو حل کرنا بھی ضروری ہے۔ بہرحال سیاسی جماعتوں کی فی الوقت ترجیح اقتدار تک رسائی ہے، سنگین مسائل پر مباحثہ بے معنی ہے جو کہ سب سے بڑا المیہ ہے۔