بلوچستان میں صحت کی سہولیات کا فقدان ہے ، بڑے سرکاری اسپتالوں میں مسائل بہت زیادہ ہیں
کوئٹہ جو دارالخلافہ ہے یہاں کی سرکاری اسپتالوں میں مشینری سمیت دیگر آلات اور سہولیات کے حوالے سے ڈاکٹر خود متعدد بار شکایات کرچکے ہیں
جس کا اندازہ کانگو وائرس کے دوران لگایاجاسکتا ہے ۔جب بھی کوئی بڑی وباء بلوچستان میں پھوٹ پڑتی ہے تو ڈاکٹر خود اس سے متاثر ہوجاتے ہیں چونکہ اسپتالوں میں انتظامات ہی نہیں ہوتے ،متاثرہ ڈاکٹروں سے لے کر مریضوں تک علاج کی غرض سے کراچی کا رخ کرتے ہیں یہ بڑا المیہ ہے ۔
نیز غذائی قلت کے شکار بچوں اورخواتین کا مسئلہ بھی موجود ہے ،زچگی کے دوران خواتین کی اموات اب بھی رپورٹ ہوتی ہیں کیونکہ اندرون بلوچستان صحت کے مراکز کی صورتحال انتہائی ابتر ہے وہاں ڈاکٹر، عملہ، ادویات، مشینری نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے وہاں کے لوگ علاج کی غرض سے کوئٹہ یا پھرکراچی جاتے ہیں
حالانکہ گزشتہ دو حکومتوں کے دوران بلوچستان میں صحت کے لیے خطیر رقم بجٹ میں مختص کی گئی مگر اس کے باوجود بھی صحت کا شعبہ تباہ حال ہے،
وہ رقم کہاں خرچ ہوئی اس پر کوئی تحقیقات نہیں کی گئی ۔
لیکن دوسری جانب سرکاری اجلاس اور بیانات کو دیکھاجائے تو بلوچستان میں صحت کا شعبہ سب سے زیادہ فعال ہے اور لوگوں کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کی جارہی ہے۔ گزشتہ روز سیکرٹری صحت بلوچستان عبداللہ خان کی زیر صدارت وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشن اینڈ کوآرڈینیشن حکومت پاکستان اسلام آباد کے وفد کا اجلاس منعقد ہوا۔
اجلاس میں بلوچستان کی ہیلتھ پالیسی اور ہیلتھ وژن پر بات چیت کی گئی۔سیکرٹری صحت نے وفد کو بلوچستان میں صحت کے شعبے میں جاری اصلاحات ، ٹریننگ ، انفراسٹریکچر اور دورس نتائج کے بارے میں آگاہ کیا۔
نیشنل کنسلٹنٹ ڈاکٹر سمین صدیقی نے کہا کہ چیلنجز کے باوجود محکمہ صحت کی کارکردگی قابل ستائش ہے۔بلوچستان کے لوگوں کی صحت کو بہتر بنانے اور خطے میں ہماری آبادی کو صحت مند بنانے میں وفاقی حکومت مدد کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
سیکرٹری صحت بلوچستان عبداللہ خان نے وفد کو بتایاہمارا وژن صحت کے بہتر نظام کی فراہمی ہے لوگوں اور کمیونٹیز کی صحت کی حالت کو بہتر بنانے میں مدد کرنے کے مقصد کے ساتھ مؤثر ، مساوی، قابل رسائی اور سستی صحت کی خدمات فراہم کرتا ہے۔
بلوچستان میں صحت کی جدید تعلیم کے میڈیکل کالجز بنائے گئے اور میڈیکل فیکلٹی کی اپ گریڈیشن کے ساتھ ساتھ الائیڈ ہیلتھ کے کورسز ، بی ایس نرسنگ کے کورس شروع کرانے کے اقدامات تکمیل کے مراحل میں ہیں۔بلوچستان میں زچہ وبچہ کی شرح اموات میں کمی ہوئی ہے بریسٹ فیڈنگ کے لیے قانون سازی کی گئی۔نیوٹریشن پروگرام کی اضلاع میں کارکردگی ورلڈ فوڈ پروگرام کی معاونت سے بہتر ہے۔ہیلتھ کیر کمیشن کی تشکیل دے کراسے فعال کردیا گیا۔
مینٹل ہیلتھ پالیسی تشکیل دی گئی صحت کے انفراسٹریکچر پر خاص توجہ دی گئی ہے۔
ہیلتھ کارڈ کے ذریعے بلوچستان کے 23 لاکھ خاندان مستفید ہو رہے ہیں۔
ڈی ایچ آئی ایس ٹو میں اضلاع روزانہ کی بنیاد پر مانیٹرنگ اور ڈیٹا اکٹھا کرنے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔ٹیلی ہیلتھ میڈیسن پروگرام 32 اضلاع میں کامیابی سے کام کر رہا ہے۔ت
مام شاہراہوں پر مرک 1122 کی سروسز دی جارہی ہے کسی بھی حادثے کی صورت میں مرک 1122 کی سروسز اور عملہ طبی امداد کی فراہمی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ صحت کے شعبے کے حوالے سے وہ تمام باتیں ہیں جو سرکاری سطح پر کی جارہی ہیں اب ان پر یقین حقائق کو جانچ کرہی کیا جاسکتا ہے ۔
اول تو شاہراہوں پر بڑے حادثات رونما ہوتے ہیں تو کسی بھی مقام پر ریسکیو سروس دستیاب نہیں کہ فوری طور پر زخمی افراد کو اسپتال منتقل کیا جاسکے۔
زچگی کے دوران اموات تو اب بھی رپورٹ ہورہی ہیں پھر بہتری کہاں آئی۔ بہرحال پریس ریلیز کی دنیا سے نکل کر بلوچستان کے ساتھ انصاف کیاجائے، محض بیانات اور اجلاس ،اعلامیہ جاری کرکے حقائق کو نہ چھپایا جائے بلکہ ان چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے صحت کے شعبے کی بہتری کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں
،جو رقم مختص کی جاتی ہے اسے ٹھیک طرح سے خرچ کیاجائے کیونکہ یہ عوام کے ٹیکس کے پیسے ہیں اور حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کا خادم بن کر ان کی خدمت کرے۔