عنوان: کراچی سے اردو یونیورسٹی کی منتقلی
جناب چانسلر!
یقیناً آپ کے علم میں یہ بات ہوگی اور بحیثیت چانسلر /صدر مملکت / سپریم کمانڈر (اگرچہ بے اختیار) آپ کو اب تک یہ معلو م ہوچکا ہوگا کہ وفاقی اردو یونیورسٹی کے لیے مستقل وائس چانسلر کے انتخاب میں پیشہ وارانہ تجربہ، تحقیق و تدریس اور انتظامی امور میں مہارت کے علاوہ (غیر اعلانیہ طور پر) کن فضائل و خصوصیات کو مدنظر رکھا گیا ہوگا۔ کیا اردو یونیورسٹی کے ممکنہ وائس چانسلر کی سب سے بڑی اہلیت محض یہ ہونی چاہیے کہ وہ یونیورسٹی کو اسلام آباد شفٹ کرسکے؟ سردست صورتحال یہ ہے کہ شارٹ لسٹ کیے جانے والے امیدواروں میں سے کسی ایک بھی امیدوار کا تعلق سندھ سے نہیں ہے۔ سرچ کمیٹی کے فلسفہ کے مطابق اردو یونیورسٹی کے اساتذہ اس قابل ہی نہ تھے کہ ان کو وائس چانسلر کی دوڑ میں شامل کیا جاسکے لیکن کیا سندھ دھرتی میں ایک بھی ایسا قابل سپوت نہ تھا جسے بحیثیت امیدوار شامل کیا جاتا؟ کیا سندھ وفاق ِ پاکستان کا حصہ نہیں؟ خاص طور پر ایسی صورت میں جب تاریخی طور پر کراچی میں قائم اردو آرٹس و سائنس کالجز کو اپ گریڈ کر کے وفاقی اردو یونیورسٹی کا قیام سندھ کے شہر کراچی میں عمل میں لایا گیا۔افسوس کا مقام ہے کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے اور سندھ کے حقوق کی بات کرنے والے سندھ کے ادیب و دانشور نگراں وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت مدد علی سندھی کی وزارت میں یہ سب کچھ ہورہا ہے۔
یونیورسٹی کے کوڈ میں پرنسپل سیٹ اسلام آباد ہونے کے باوجود یونیورسٹی کے مالی، انتظامی اور دیگر مسائل کا حل یونیورسٹی پرنسپل سیٹ کی اسلام آباد منتقلی ہرگز نہیں ہے۔ اردو یونیورسٹی کی اسلام آباد منتقلی کا فیصلہ یونیورسٹی کی خرابیوں کے حوالہ سے ایک بھونڈی تشخیص ہے۔ یونیورسٹی پرنسپل سیٹ سمیت انتظامی کنٹرول اسلام آباد منتقل کر بھی دیا گیا تو یونیورسٹی کے مسائل کے حل کے حوالہ سے یہ فیصلہ محض وقتی، ضمنی اور عارضی نوعیت کا ہی ثابت ہوگا۔
اردو یونیورسٹی کے مسائل اور بحرانات میں جہاں مختلف آنے والی انتظامیہ کی نااہلی، کرپشن اور اقرباء پروری شامل رہی ہیں وہیں وفاقی وزارت تعلیم، ہائر ایجوکیشن کمیشن اور چانسلر آفس کی عدم دلچسپی، غیر سنجیدگی، عدم توجہی، مسائل کو حل نہ کرنے کی اہلیت اور بحران سے نمٹ نا سکنے کی صلاحیت بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ اردو یونیورسٹی کی تباہی درحقیقت مذکورہ بالا تمام اداروں کی کوتاہ قامتی کی بدترین مثال ہے۔
اردو یونیورسٹی کے علاوہ بھی پاکستان کی تقریباً تمام پبلک سیکٹر یونیورسٹیاں بدترین مالی اور انتظامی بحرانات کا شکار ہیں۔ وفاقی وزارت تعلیم اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی موجودگی میں تمام یونیورسٹیاں ’’تماشہ گھر‘‘ کا روپ دھار چکی ہیں تو کیا ان تمام یونیورسٹیوں کے انتظامی کنٹرول کو کہیں اور منتقل کردیا جائے؟ منتقلی سے دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی؟ فیڈرل بیوروکریسی کے مفادات اور اسلام آباد کی آمریت قائم رکھنے کی پالیسیوں کو اردو یونیورسٹی کے مسائل کا حل ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ فیڈرل بیوروکریسی کی دیرینہ خواہش کو ہائر ایجوکیشن کمیشن اور سرچ کمیٹی کے ذریعہ پورا کرتے ہوئے اردو یونیورسٹی کے انتظامی کنٹرول کو کراچی سے چھینا جارہا ہے۔
فیڈرل بیوروکریسی اردو یونیورسٹی کے ساتھ جو کچھ کررہی ہے انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ببول کے درخت پر گلاب نہیں اگتے۔ یہ سلسلہ نفرتوں کو جنم دے گا۔ کراچی کیمپس بے بس، کمزور اور تقسیم کا شکار سہی لیکن پانی پر کائی جم جانے سے پانی کا نام ہی کائی نہیں پڑ جاتا۔ ذرا سا ارتعاش کائی سے پانی کو آزاد کردیتا ہے اور اس کی تمام تروتازگی واپس لوٹ آتی ہے۔ اردو یونیورسٹی کے انتظامی کنٹرول کو کراچی سے چھیننے کی ہر سطح پر مزاحمت کی جائے گی۔
منجانب ۔ڈاکٹر اصغر دشتی