|

وقتِ اشاعت :   April 6 – 2016

جنیوا: اقوام متحدہ میں بلوچ نمائندہ میر نورالدین مینگل نے کہا ہیکہ بلوچ قوم کے آزادی کو مارچ 1948 سے سلب کیا گیا ہے اورریا ست اور اْس کے اداروں نے بلوچ قوم کے آواز کو نہ صرف مسلسل دبائے رکھا ہے بلکہ ریا ست کا ہمیشہ سے یہ کوشش رہا ہیکہ وہ خطے میں عدم استحکام سے فائدہ اْٹھائے اور بلوچستان کی قومی دولت اور وسائل کو غصب کرے۔ ان خیالات کا اظہار اْنہوں نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی 31 ویں سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ میر نورالدین مینگل نے مزید کہا کہ ریا ست کی عدالتی نظام کو جس طرح فوج نے ٹیک اوور کیا دنیا میں کئی لوگ جو ریا ست کو ایک جمہوری ریاست سمجھنے کے غلط فہمی میں مبتلا تھے اْمید ہیکہ اب اْن کے آنکھیں کْھل گئے ہونگے۔ اِن حالات میں آخر کار بدقسمتی یہ ہیکہ عوام کو ایک ایسی زندگی گزارنی پڑتی ہیکہ جہاں اْنکی سیاسی، ثقافتی اور سماجی آزادی بْری طرح مفلوج ہے اور لوگ مسلسل ایک خوف میں جی رہے ہوتے ہے کہ کئی وہ ریاست کے تشدد اور دباو کا شکار نہ بن جائیں۔ خوف و ہراس، تشدد، نقل مکانی، ماورائے قانون حراست، جبری گمشدگی، دوران حراست قتل اور کئی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی روز کا معمول بن چکا ہے۔ جو بھی انسان اسلام آبادسے بلوچ مسلے پر اختلاف رائے رکھے وہ ریاستی اداروں کا ممکنہ ٹارگٹ بن جاتا ہے جس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو سیاسی طور پر سرگرم نہیں ہیں بیشک وہ بلوچ، سندھی، پشتون، سرائیکی، کشمیری، گلگتی، مہاجر یا پنجابی ہو۔ریاست کے اس عمل کے کئی مثالیں ہیں صرف سال 2015 میں ریاست کے اس طرح کے بہت سے کاروائی سامنے آئے جہاں پر سماج کے سب سے کمزور اور معصوم طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو نشانہ بنایا گیا جس طرح نومبر میں 28 بلوچ خواتین اور بچوں کو اْنکے آبائی گھروں سے اغوا کیا اور اْنکے گھروں کو جلایا اس طرح کے سینکڑوں گاو?ں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جلائے گئے ہیں۔ یہ واحد موقع نہیں ہیکہ جہاں پر خواتین ریاست کے ظلم و بربریت کے نشانے بننے ہوں۔ سبین محمود جو کہ ایک سماجی کارکن تھی جھنوں نے بلوچ مسلے پر ایک پروگرام منعقد کیا اْن کو اْس پروگرام کے فورَا بعد سرعام قتل کیا گیا پروگرام سے قبل اْنھیں ریاستی اداروں کی جانب سے متعدد بار دھمکی دی گئی اور حراساں کیا گیا اس واقعہ سے قبل لمز یونیورسٹی کو بلوچستان کے مسلے پر سیمینار کرنے سے بھی روکا گیا۔ اْنہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کے صورتحال کی اہمیت اور اثرات کے باوجود عالمی برادری اور میڈیا کی توجہ نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔ بدقسمتی سے چونکہریا ست کو عالمی طاقتیں اپنا ایک اتحادی سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ عالمی طاقتیں اسی لئے مجبور لگتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں پر اب تک کوئی عملی قدم نہیں اْٹھا سکیں ہیں۔ ایک طرف پاکستانی ادارے بلوچ اور علاقائی صحافیوں کو منصوبے کے تحت ایک تسلسل سے خوفزدہ اور خاموش کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف عالمی صحافیوں کو بلوچستان تک رسائی سے روکا جاتا ہے تاکہ اصل حقیقت دنیا کے سامنے نہ آسکے۔ ریاستی پشت پناہی میں انتہا پسندی سیکولر بلوچ قوم کے لئے ایک بڑھتی ہوئی خطرہ ہے۔ پاکستان کے خفیہ ادارے تسلسل سے ایک منصوبے کے تحت مذہبی انتہا پسندوں کی حمایت کررہے ہیں اور اْنھیں مزید وسعت دے رہے ہیں۔ اِس گھناونی سازش کے تحت بلوچ نشنلزم، سیکولر اور پروگریسو قوتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور بلوچستان کے سیاسی، سماجی، ثقافتی ڈھانچے کو مسخ اور مسمارکی جارہی ہے اور اس کے ذریعے ریاسست خطے میں اپنے اجارہ داری کو مضبوط کرسکے۔ اْنہوں نے مزید کہا ہیکہ دنیا کو بلوچ قوم کی ازیتوں کو نظر اندازنہیں کرنا چائیے۔نہ صرف بلوچ قوم کی سماجی ڈھانچہ اور مستقبل کو تباہ کررہے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پورے خطے کی امن، استحکام اور ترقی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ لہذا عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے اپیل ہے کہ وہ ان حالات میں بلوچستان پر توجہ مرکوز کریں اور اس مسلے کا پرامن اور پائیدار حل نکالیں جو کہ بلوچ قوم کے لئے حقوق، برابری، انصاف اور آزادی سے ممکن ہے۔