|

وقتِ اشاعت :   February 27 – 2024

مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ آج کل سب سے زیادہ قومی اسمبلی اجلاس کے حوالے سے بات چیت ہورہی ہے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ صدر صاحب ایک بار پھر آئین شکنی کرنا چاہتے ہیں تو دستخط نہ کریں، اسمبلی اجلاس کی طلبی سے متعلق آئین بہت واضح ہے، صدر اگر سمری پر دستخط نہ کریں تو مطلب ہے کہ وہ نہیں چاہتے اجلاس ہو۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ صدر نے اعتراض لگا کر سمری واپس بھیج دی ہے، لاہور میں بھی آزاد امیدواروں نے اعتراض لگایا کہ ہاؤس مکمل نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسپیکر نے جو ممبر نوٹیفائی کئے اور جو موجود ہیں ان سے حلف لینا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین سے کھیل کھیلا جارہا ہے، صدر کو چاہیے تھا کہ اس مسئلے کو طریقے سے حل کرتے، سینیٹ اور قومی اسمبلی سیشن کو صدر سمن نہیں کرتے تو اسپیکر کا بھی اختیار ہے، 29 فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہونا ہی ہونا ہے, آئین کےمطابق الیکشن کے21 دن کے اندر اجلاس ہونا ہے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ صدر کے ان اقدامات پر ہوسکتا ہے کوئی انکی تشریح ہو، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے لئے پانچ روز کا وقت ہوتا ہے، ہوسکتا ہے صدر سمن جاری کریں وہ ان کا اچھا تاثر ہوگا، وفاقی حکومت نے صدر کو ان کے اعتراضات پر جواب بھجوا دیا ہے، آئین خود کہتا ہے اگر کوئی چیز آئین میں ہونا تھی نہیں ہوئی تو وہ قابل قبول ہے۔

ایک سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں جے یو آئی سمیت سب کو ساتھ لے کر چلیں، یہ مسائل اتنے گہرے ہیں کہ ہم سب مل کر کوشش کریں گے تو ان مسائل سے نکل سکیں گے، ہمارے قائد نواز شریف نے کہا تھا کہ سب مل کر ملک کو مسائل سے نکالیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور گورنر بلوچستان کا فیصلہ کل تک ہوجائے گا، کل اتفاق رائے سے دونوں عہدوں کے لئے ناموں کا اعلان کردیا جائے گا۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کا کل اجلاس ہونے جارہا ہے، آج اس حوالے سے ہماری میٹنگ ہوئی ہے، چند دن پہلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان جو طے ہوا تھا یہ میٹنگ اس کا تسلسل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم مل کر قومی اسمبلی میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کریں گے یہ معاہدہ ہوچکا ہے، بلوچستان اسمبلی میں کل حلف برداری ہے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن مل کر وزیراعلیٰ کا فیصلہ کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم قومی اسمبلی اور بلوچستان کا مل کر فیصلہ کریں گے۔