بلوچستان میں بنیادی سہولیات کے مسائل دہائیوں سے موجود ہیں۔
اگر صحت کی بات کی جائے تو صحت کے شعبے میں بہتری کیلئے 2013ء کے دور حکومت میں خطیر رقم بجٹ میں مختص کی گئی یہ فیصلہ نیشنل پارٹی اور ن لیگ کی مخلوط حکومت نے کی تاکہ بلوچستان میں صحت کے بنیادی مراکز میں بہتری آسکے ۔شہری اور دیہی علاقوں کے سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹر، عملہ، مشینری، آلات تمام تر سہولیات اسپتال میں موجود ہوں تاکہ غریب عوام کا مفت اور بہترین علاج یقینی ہوسکے، دور دراز کے علاقوں سے آنے والے مریضوں کو کوئٹہ کی بجائے ان کے قریبی علاقوں میں ہی علاج معالجے کی سہولت میسر آسکے جبکہ کوئٹہ کے سرکاری اسپتال بھی فنکشنل ہوکر بہتر طریقے سے کام کریں۔ مگر افسوس رقم مختص ہونے کے باوجود صحت کے شعبے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اس میں کرپشن اور بیڈ گورننس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جبکہ اسپتالوں میں ڈاکٹرز، عملہ، مشینری سمیت دیگر آلات نہ ہونے کی وجہ بھی آفیسران کی ملی بھگت ہی ہوسکتی ہے۔
حکومتوں کی لاپرواہی اور لاڈلے پن والے رویہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ حکومتیں اگر مکمل توجہ اہم شعبوں پر مرکوز رکھتیںاور سہ ماہی رپورٹ لیکر جائزہ لیتی رہتیں تو تمام حقائق سامنے آتے کہ صحت کے شعبے کی رقم کہاں اور کس جگہ خرچ ہورہی ہے مگر کوئی نوٹس لیا ہی نہیں گیا تو ظاہر سی بات ہے رقم مبینہ طور پر کرپشن کی نظر ہوگئی اور ڈاکٹرز، عملہ کی غیر حاضری بھی ملی بھگت کا نتیجہ ہے جو سیاسی بنیادوں پر بھرتیوں کی وجہ بنتی ہے۔ اسپتالوں میں بہتری، مشینری، آلات سمیت دیگر سامان کیلئے ٹینڈرز بھی منظور نظر افراد کو ہی دی جاتی ہے جن کا مقصد ہی کرپشن کرنا ہے۔ المیہ ہے کہ آج بھی بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں زچہ و بچہ کی اموات سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ریکارڈ کے طور پر رپورٹ ہوتی ہے معمولی علاج کیلئے غریب عوام ٹھوکریں کھاتی ہیں۔
افسوس کہ سب ان مسائل کے ذمہ دار ہیں جس کی ایک واضح مثال گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کے دورہ بی ایم سی کے دوران پیش آیا کہ میل نرس نے وزیراعلیٰ کے دورے کے موقع پر خود کو ڈاکٹر ظاہر کیا اور محمد قاسم نے ڈاکٹر بن کر وزیراعلیٰ بلوچستان کو بریفنگ بھی دی۔ وزیراعلیٰ نے غلط بیانی پرنرس کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کی۔ بی ایم سی کے میل نرس کے خلاف بروری تھانے میں مقدمہ درج کرلیا گیا، مقدمہ ایڈمنسٹریٹو آفیسر بی ایم سی کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ یہ انتہائی افسوسناک عمل ہے کہ صوبے کا ایگزیکٹیو اسپتال کے دورے پر پہنچا ہے جو صحت کی سہولیات اور مسائل کی معلومات لینے آیا ہے، اس دوران ایم ایس، ڈاکٹرز کیا موجود نہیں تھے جو وزیراعلیٰ بلوچستان کو بریفنگ دیتے۔
اس پورے معاملے کے اندر ہماری صحت کے شعبے کے نظام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح سے بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ کے اندر یہ سب کچھ ہورہا ہے؟ وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نہ صرف اس کیس پر انکوائری بٹھائیں بلکہ صحت کے شعبے کے حوالے سے ایک ٹیم تشکیل دیں کہ سرکاری اسپتالوں میں کام کس طرح سے ہورہا ہے اور وہاں ڈاکٹروں اور عملہ سمیت تمام ضرورت کا سامان موجود ہے جس سے غریب عوام کا باقاعدہ علاج ہورہا ہے ، اس سے مکمل حقائق سامنے آئینگے کہ صحت کے شعبے کے ساتھ کس طرح واردات کی جارہی ہے اور عوام کی زندگیوں کے ساتھ کھیلا جارہا ہے ۔
یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے امید ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی اس پر ضرور توجہ دینگے تاکہ صوبے کے اندر عوام کی سہولیات کیلئے بنائے گئے شعبوں میں اصلاحات اور بہتر لائی جاسکے۔