کراچی: مشہور ٹیلی ویژن آرٹسٹ شگفتہ اعجاز کے کراچی کے علاقے گلستانِ جوہر میں واقع ‘اینوی سیلون’ میں شیشے کا وہ دروازہ جس پر درج تھا کہ اپنی چیزوں کی حفاظت کے ذمہ دار آپ خود ہیں، کئی بار کھلا جس سے کلائنٹ اندر جاتے اور ہیئرکٹنگ سے فیشل اور ویکسنگ سے مساج تک مختلف خدمات حاصل کرتے۔
4 اپریل بروز پیر بھی ایک معمول کا ہی دن تھا، جب ایک مخصوص کلائنٹ نے 2 دن کے دوران سیلون میں اپنا دوسرا چکر لگایا اور وہ بھی اپنی سونے کی چین ڈھونڈنے کے لیے، جو انہوں نے فیشل کے دوران اتار دی تھی۔
افشاں جون ابیبی نے ڈان کو بتایا کہ ‘وہ اندر آئیں اور ہم سب پر چوری کا الزام لگانے لگیں۔ اگر ہم بیوٹی پارلر میں کام کرتی ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہماری کوئی عزت نہیں، وہ بہت زیادہ بپھری ہوئی تھیں، لیکن ہم نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور ان سے درخواست کرتے رہے کہ وہ اپنی آواز دھیمی رکھیں اور پرسکون رکھیں، مگر وہ اور زیادہ غصہ میں آگئیں، اُسی وقت ہم نے اپنی باس کو کال کی۔’
انہوں نے مزید بتایا، ‘اُس وقت انھوں نے بہت خراب زبان استعمال کی اور ہاتھا پائی پر اتر آئیں ۔ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر مروڑ دیا۔ میں اپنا توازن کھو سکتی تھی، لیکن میں نے فوراً ایک کرسی کو تھام لیا تاکہ اپنا توازن برقرار رکھ سکوں . خدا جانتا ہے میرے ساتھ کیا ہوجاتا اگر میں گر جاتی۔’
سیلون میں کام کرنے والی ایک اور خاتون عظمیٰ شاہ کے ہاتھ پر بھی پلاسٹر بندھا ہوا تھا، اُس غصے سے بھری کلائنٹ نے انہیں بھی نہیں بخشا اوران کے ساتھ بھی برا سلوک کرنے کی کوشش کی ۔ اُن کا کہنا تھا، ‘ وہ اکثر فیس ویکس اور اپنی بھنویں بنوانے آتی تھی، اور ان کا رویہ ہمیشہ سے تلخ رہا ہے، وہ کام کرنے والی لڑکیوں کو کہتی تھیں کہ ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آیا جائے ورنہ وہ اپنے شوہر کو کال کردیں گی جو ان کے مطابق بہت طاقتور انسان ہیں اور اس دن انھوں نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا.’
سیلون مالک کی بیٹی حیا علی کا کہنا تھا، ‘میں اپنی (ملازم) لڑکیوں کی جانب سے کی جانے والی مدد کی کال پر دوڑی چلی آئی۔ میں نے آکر ان خاتون کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی تو وہ مزید غصے میں آگئیں اور مجھ پر ہاتھ اُٹھا دیا۔ ہم نے گارڈز کو بلایا جو انھیں باہر لے گئے، لیکن گھر جانے کے بجائے وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ گئیں اور اپنی مدد کے لیے لوگوں کو بلوالیا’.
حیا نے مزید بتایا، ‘ہم اس بات سے بالکل غافل تھے. کچھ ہی دیر بعد سادہ کپٹروں میں ملبوس 4 افراد پر مشتمل ایک پولیس موبائل سیلون کے سامنے آکر رکی اور انھوں نے باہر کھڑے ہمارے گارڈ پر حملہ کردیا.’
سیکیورٹی گارڈ صدام حسین نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان افراد نے ان سے بندوق چھین لی اور اس کے بٹ سے انہیں مارا گیا۔
صدام کا کہنا تھا کہ ‘انہوں نے سیلون پر چھوٹے موٹے کام کرنے والے ایک 13 سالہ لڑکے جلیل احمد کو بھی پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا اور ساتھ میں مجھے بھی مارتے رہے. انھوں نے ہمیں اس وقت تک مارا جب تک اندر موجود لڑکیوں نے پارلر کے دروازے کو کھول نہیں دیا۔ پھر اس کے بعد وہ زبردستی اندر گھس گئے، ان کے ساتھ غصے سے بھری وہ کلائنٹ اور ان کا شوہر بھی موجود تھا، جنھیں کال کرکے بلایا گیا تھا.’
حیا کا مزید کہنا تھا ، ‘نجی کمروں میں کلائنٹس موجود تھیں، جو مساج اور ویکسنگ کروا رہی تھیں۔ ان مردوں کو ذرا شرم نہیں آئی اور اندر گھس کر توڑ پھوڑ شروع کردی.’
انہوں نے مزید بتایا کہ ‘اُن کے پاس پستول اور ہمارے گارڈ سے چھینی گئی رپیٹر موجود تھی، جس سے ہمیں ڈرا دھمکا کر وہ اندر گھس رہے تھے’.
سیلون کی مالک، حیا کی والدہ اور مشہور ٹیلی ویژن فنکارہ شگفتہ اعجاز کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس واقعے پر پولیس میں شکایت درج کرنے کی کوشش کی تو ہماری حوصلہ شکنی کی گئی۔
اُن کا کہنا تھا کہ ‘شارع فیصل پولیس اسٹیشن پر ہمیں سمجھوتا کرنے کو کہا گیا، جب میں نے اس بات سے منع کردیا اور چلی گئی تو وہ میرے شوہر کے پیچھے لگ گئے۔ وہ ہمارے بارے میں فکرمند تھے، جب انہوں نے دیکھا کہ وہ لوگ کتنے طاقتور ہیں تو وہ دباؤ میں آگئے اور سمجھوتا کرنے پر راضی ہوگئے، لیکن انہوں نے جس بھی کاغذ پر دستخط کیے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ شکایت کنندہ میں تھی، میرے شوہر نہیں۔ میں اس معاملے کو آخر تک پہنچاؤں گی تاکہ کوئی بھی بعد میں خواتین کی عزت کو خطرے میں نہ ڈالے.’
واضح رہے کہ اس پورے واقعے کا مرکزی کردار کلائنٹ حنا خان ہیں، جو ڈپٹی ڈائریکٹر نیب اوصاف تالپور کی اہلیہ ہیں۔
جب ڈان نے حنا خان کاموقف جاننے کے لیے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے اپنا فون آف کر رکھا تھا۔
سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) گلشن ڈاکٹر فہد کے مطابق ‘شارع فیصل تھانے میں محترمہ شگفتہ اعجاز کی مدعیت میں ڈپٹی ڈائریکٹر نیب اوصاف تالپور، ان کی اہلیہ اور نیب اہلکاروں کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 427 (فساد جس سے 50 روپے سے زائد کا نقصان ہو)،452 (کسی گھر میں بلا اجازت گھس کر نقصان پہنچانے، حملہ کرنے یا قید کرنے کی نیت سے داخل ہونا)، 395 (سزا برائے ڈکیتی ) اور 34 (عام ارادے) کے تحت شکایت درج کر لی گئی ہے۔’