|

وقتِ اشاعت :   April 9 – 2016

اسلام آباد: گینگ ریپ سمیت جنسی استحصال کا شکار ہونے والی ایک خاتون نے اس سنگین جرم کی جانب توجہ مبذول کروانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے، جن کا دعویٰ ہے کہ انھیں اب بلیک میل بھی کیا جارہا ہے. پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ کے گاؤں خان پور بگا شیر کی رہائشی خاتون نے اپنے وکیل ذوالفقار احمد بھٹہ کے توسط سے بنیادی حقوق کے نفاذ کے تحٹ سپریم کورٹ سے رجوع کیا، خاتون کا دعویٰ تھا کہ وہ ایسا اس لیے کررہی ہیں تاکہ اُن دیگر خواتین کو بچایا جاسکے جو ملک میں قانون کے نفاذ کے غیرموثر طریقہ کار کی وجہ سے اس طرح کے استحصال کا شکار ہوتی ہیں. ایڈووکیٹ بھٹہ نے ڈان کو بتایا کہ انھوں نے سپریم کورٹ میں پیشن دائر کی ہے کیونکہ اب یہ ضروری ہوچکا ہے کہ اس طرح کے جرائم کو اجاگر کیا جائے، جو اعلیٰ حکام اور پولیس کی ناک تلے ہوتے ہیں. انھوں نے بتایا کہ چند سال قبل راولپنڈی، اسلام آباد میں ایک کیفے اسکینڈل سامنے آیا تھا، جس کے نتیجے میں بہت سی بدقسمت لڑکیاں خاندان کی عزت بچانے کی خاطر اپنے رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل کردی گئی تھیں. بھٹہ کے مطابق پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار واحد خاتون نہیں ہیں جن کے ساتھ یہ ظلم ہوا، بلکہ ایسی متعدد خواتین ہیں جو اسی قسم کی صورتحال سے دوچار ہیں. اس طرح کے جرائم پنجاب میں تیزی سے پھیل رہے ہیں کیونکہ کوئی بھی آگے آنے کی ہمت نہیں کرتا. درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ وہ پنجاب کے چیف سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل آف پولیس کو ان تمام مقدمات اورایف آئی آرز کا مکمل ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کرے، جو لڑکیوں کی نامناسب تصاویر اور ویڈیوز بنا کر انھیں جنسی مقاصد کے لیے بلیک میل کرنے کے حوالے سے درج کیے گئے. عدالت عظمیٰ سے یہ بھی درخواست کی گئی کہ اعلیٰ حکام کو اس طرح کے سنگین جرائم میں ملوث افراد کے خلاف تحقیقات کروانے اور پولیس کی جانب سے پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 354 اے کے تحت مقدمات درج کروانے کی یقین دہانی کروانے کے احکامات بھی جاری کیے جائیں. واضح رہے کہ دفعہ 354 اے خواتین پر جنسی تشدد سے متعلق ہے، جس کی سزا عمر قید ہے. درخواست گزار نے اپنی پٹیئشن کے ساتھ مظفرگڑھ کے ماڈل کالونی پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آرکی کاپی بھی منسلک کی، جس میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات365 بی (اغواء یا خاتون سے شادی کے لیے زبردستی کرنا)، 376 ( ریپ) اور420 (دھوکہ دہی اورفراڈ) کی دفعات شامل ہیں. 26 مارچ کو درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق درخواست گزار نے جولائی 2015 میں مظفرگڑھ کے فیصل اسٹیڈیم کے قریب ایک نجی سیکیورٹی کمپنی میں ملازمت شروع کی، کچھ ہی دن بعد اسے اس کے ‘ماسٹر’ نے کہا کہ وہ اسے فیلڈ ڈیوٹی کے بارے میں بتانے کے لیے ایک ‘میڈم’ کے ساتھ بھیج رہا ہے، جو اس کی ملازمت کاحصہ ہے، لیکن مذکورہ خاتون سے ملاقات کے بجائے اسے ایک خالی مکان میں بھیج دیا گیا، جہاں اس کے ساتھ ریپ کیا گیا اور پھر اس کی نامناسب تصاویر لی گئیں. بعدازاں اس کے آجر نے اسے بلیک میل کرنا شروع کیا اور دھمکیاں دیں کہ اگر اس نے ان کی بات نہیں مانی اور کسی کو اس بارے میں بتایا تو وہ یہ تصاویر انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کردے گا. ایف آئی آرکے مطابق اگلے دن مذکورہ شخص اسے ایک اور گھر میں لے گیا، جہاں اس نے نشے میں دھت پولیس اہلکاروں کے ساتھ مل کر اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا، پولیس اہلکاروں نے خاتون کو خبردار کیا کہ اگر اس نے ان لوگوں کے ساتھ تعاون نہیں کیا تو اس کے والدین کو سنگین مقدمات میں پھنسا دیا جائے گا. ملزم نے مذکورہ خاتون کی فون پر ایک شخص سے بات بھی کروائی جس نے خود کو مظفرگڑھ کا ڈی پی او بتایا اور خاتون کو دھمکی دی کہ اگر یہ واقعہ کسی سے بیان کیا تو اسے سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے. ایف آئی آر کے مطابق اسے 8 ماہ تک ریپ کا نشانہ بنایا گیا اور اس دوران اسے اور اس کے اہلخانہ کو مقامی پولیس کی جانب سے دھمکایا جاتا رہا کہ انھیں جھوٹے مقدمات میں پھنسا دیا جائے گا. انھوں نے 26 مارچ کو خاتون کو قتل کی دھمکی بھی دی اور ایک خالی نکاح نامے پر دستخط بھی کروالیے تاکہ مستقبل میں بھی اس کا استحصال کیا جاسکے. درخواست گزار کا کہنا تھا کہ وہ یہ انکشافات اس لیے کر رہی ہیں تاکہ اس طرح کے ظلم کا شکار ہونے والی دیگر خواتین کو بچایا جاسکے. مذکورہ خاتون نے ایف آئی آر میں یہ دھمکی بھی دی کہ اگر انھیں انصاف فراہم نہیں کیا گیا تو وہ مظفرگڑھ کے ڈسٹرکٹ پولیس آفس کے باہر خودسوزی کرلیں گی.