کوئٹہ:وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفرازاحمد بگٹی نے کہاہے کہ کیامذاکرات سے بلوچستان میں بغاوت ختم ہوجائیگی؟ بغاوت کرنے والے بات چیت کیلئے تیار ہی نہیں ہے ،تمام اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل بلوچستان میں ایک تھینک ٹھینک بنایاجائے جس میں سرداراخترجان مینگل ،ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ ،انوارالحق کاکڑ سمیت دیگر شامل ہوں اور وہ 20سے 25سالہ فارمولہ بنائیں ریاستی ادارے دہشتگردی کے10واقعات میں سے 9واقعات کوناکام بناتی ہے
لیکن ایک میں دہشتگرد کامیاب ہوجاتے ہیں اور پھر ریاست کے گئے انٹرنیٹ سہولت سے وہ لوگوں کو لائیو دکھایاجاتاہے ،بدقسمتی ہے کہ اگر فوجیوں کو مارا جاتاہے تو انسرجنسی جائز اور اگر ان کو مارا جائے تو پھر ناجائز سوال یہ ہے کہ ایک قوم ہونے کے ناطے ہم کس طرف جارہے ہیں ،ایک طرف ریاستی رٹ قائم ہونی چاہے دوسری طرف ترقی پر زور دیناچاہیے ،
اگر اسلام آباد اور کوئٹہ کی طرز پر ترقی بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں ہو تو شکایات نہیں ہوگی کرپشن کا یہ عالم ہے کہ کوئٹہ میں ایک برج شہر کے اندر آدھا بن گیاہے اور بعد میں پتہ چلا کہ ڈیزائن خراب ہے توپھر گورننس کی ایسی ماڈل سے معاملات ٹھیک نہیں ہونگے ۔ان خیالات کااظہار انہوں نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ میرسرفرازاحمدبگٹی نے کہاکہ کون بیوقوف ہوگا جو پہاڑ پر جانے والوں سے مذاکرات نہیں کرے گا ہم مذاکرات کریںتو کس سے ؟میں تو قوم پرست جماعتوں سے کہتا ہوں کہ آئیں مذاکرات کریں اور ہم مذاکرات کس سے کریں ؟
کیا بشیر زیب آپ سے مذاکرات کرے گا ؟کیا آپ سے ڈاکٹراللہ نذر مذاکرات کرے گا ؟وہ لوگ تو آپ سے مذاکرات کرنے کیلئے بھی تیار نہیں ،براہمداغ بگٹی مذاکرات ضرور کرنا چاہتا ہے اور ریاست کو بھی ان سے مذاکرات کرنی چاہیے ۔اس کوبلوچستان میںآگے بڑھنے کا موقع مل سکے گااور یہاں پر وہ گروتھ کرے گا بلکہ میرے پوزیشن پر بھی آسکتا ہے اور اس کے سیاسی گروتھ کرنے کے چانسز ہیں اور پھر (راء) کیلئے ایسے لوگوں کو واپس پاکستان میں بھیجنا تو ان کو فلٹر کرناپڑے گا ایسے لوگوں کو واپس پاکستان بھیجنا پاکستان کے اخراجات (اسٹینتن) ہو اور جب بھی کبھی ضرورت ہو ہمارے پاس ماڈلز ہیں اسی ریاست نے نواب خیر بخش مری کیساتھ مذاکرات کئے،
اور سی ون 30میں ان کو واپس لا یا گیا تھاساتھ ہی انہوں نے پاکستان کا جھنڈا جلا یا اور سینئر اینکر وسعت اللہ خان کیساتھ ان کاانٹر ویو ریکارڈ کا حصہ ہے انہوں نے کیا کہا تھا ان کے الفاظ سب کے سامنے ہیں جس طرح ہم نے بالاچ مری کو انگلینڈ سے واپس پاکستان لایا اور ہم نے ان کو الیکشن جتوا یا الیکشن جتوانے کے بعد انہوں نے جو (راء) کی فوٹیج پہلی دفعہ پاکستان میں دکھائی یہ بھی سارا ریکارڈ کا حصہ ہے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ میں مخلوط حکومت کا وزیراعلیٰ ہوں اس رائے کو سامنے رکھتے ہوئے کہتاہوں کہ ہمیں مذاکرات ضرور کرناچاہیے کیا براہمداغ بگٹی سے مذاکرات کے بعد بلوچستان میں بغاوت ختم ہوجائیگی ؟ڈیرہ بگٹی بلوچستان کا ایک فیصد بھی حصہ نہیں ہے بلکہ ایک چھوٹا سا علاقہ ہے اگر ڈیرہ بگٹی میں بغاوت ختم ہوبھی گئی تو پھر بھی بلوچستان میں بغاوت موجود ہوگا،
دہشتگردی کی واقعات پھر بھی اسی طرح ہوتے رہیںگے ،بغاوت کرنے والے آپ کیساتھ بات چیت کیلئے تیار ہی نہیں ہیں جوتشدد کی راہ اپنائے ہوئے ہیں ،انہوں نے کہاکہ طالبان کے حوالے سے ہماری پالیسی کیا ہے ؟ان کو ہم کیا کریں گے ہاں بلوچستان کے حوالے سے میں کہہ سکتاہوں کہ یہاں بغاوت کی دو تنظیمیں چل رہی ہیں سیکنڈ لیڈر شپ جو ہے یہاں پہاڑوں کے اوپر فٹ سولجر ہیں آپ ان کو (انگیج )کرنے کی کوشش کریں اورفٹ سولجر کی لیڈر شپ پاکستان سے باہر بیٹھی ہیں جو پرتشدداختیار کئے ہوئے ہیں حالانکہ تشدد کااختیار صرف ریاست کے پاس ہے ،تشدد کااختیار کسی کو نہیں ملنا چاہیے اختیار نہ ہو تو پھر جوآپ سے مذاکرات کرناچاہتاہے یا واپس آکر قومی دائرے میں شامل ہوناچاہتاہے تو ان کے ساتھ بلکل مذاکرات ہونے چاہیے ،بلوچستان میں فوراََ سے پہلے ریاست کی رٹ ہونی چاہیے اور اس حوالے سے کوئی کمپرومائز نہیں ہوناچاہیے ،جہاں پر دہشتگرد موجود ہیں وہاں آپریشنز ہونی چاہیے اور ساتھ میں ایک تیھنک ٹینک بنائی جائے جس میں قوم پرست جماعتوں کے قائدین شامل ہوں
جن میں سر دار اختر جان مینگل،ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ،انوارالحق کاکڑ سمیت بلوچستان کے بیوروکریسی اور اداروں کا بھی حصہ ہوناچاہیے تشکیل کردہ اس تھنک ٹھینک کے ذریعے 20سے 25سال کا فارمولہ بنایاجائے ،بلوچستان کو انٹرنیٹ ملاہے لیکن اسی فور جی انٹرنیٹ کے ذریعے ریاست پر حملے کی ویڈیو لائیو چلائی جاتی ہے ،ہمارے ریاستی ادارے بلوچستان میں دہشتگردوں کی جانب سے 10میں سے 9واقعات روک لیتی ہے اور ایک واقعہ ہوجاتاہے اور وہ واقعہ سب کو نظرآتاہے ،جب سے ہماری حکومت آئی ہے بلو چستان میں تین واقعات ہوئے ہیں تربت ایئر بیس ، گوادر انٹیلی جنس ایجنسی کمپائونڈ پر حملہ کیاگیا لیکن ان حملوںمیں ناکامی سے دوچار ہوئے ،تشدد کے واقعات کو مختلف طریقوں سے ٹریٹ کرنے پر ناراض بلوچ کی ٹرمنالوجی استعمال کرناشروع ہوجاتاہے
،بدقسمتی ہے کہ اگر فوجیوں کو مارا جاتاہے تو انسرجنسی جائز اور اگر ان کو مارا جائے تو پھر ناجائز سوال یہ ہے کہ ایک قوم ہونے کے ناطے ہم کس طرف جارہے ہیں ،ایک طرف ریاستی رٹ قائم ہونی چاہے دوسری طرف ترقی پر زور دیناچاہیے ،اگر اسلام آباد اور کوئٹہ کی طرز پر ترقی بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں ہو تو شکایات نہیں ہوگی ،ہماری حکومت آئی ہے یہاں نوکریاں فروخت ہورہی تھی اب نہیں ہوگی ہم نے لائحہ عمل سخت کیاہے اور پابندیاں لگائی ہے ،کرپشن کا یہ عالم ہے کہ کوئٹہ میں ایک برج شہر کے اندر آدھا بن گیاہے اور بعد میں پتہ چلا کہ ڈیزائن خراب ہے توپھر گورننس کی ایسی ماڈل سے معاملات ٹھیک نہیں ہونگے ۔