کوئٹہ: وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان کب تک مارا ماری کا شکار رہے گااس کا کوئی حل نکالنا ہے اس لئے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے رہے ہیں جو صوبے کی تما م جماعتوں اور قبائل شخصیات سے ملاقات کرکے حتمی رائے دیگی کہ مزاحمت کاروں سے مذاکرت کرنے ہیں یا پھررٹ قائم کرنی ہے، لاپتہ افراد کے حوالے سے صرف پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے ،
لاپتہ افراد کے 80فیصد کیسز حل کرلئے گئے ہیںسیکورٹی بہتر بنانے کیلئے جہاں چیک پوسٹوں کی ضرورت ہوگی ضرور بنائیں گے۔
یہ بات انہوں نے اسلام آباد سے کوئٹہ آمد کے بعدوزیر اعلی سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی ،اس موقع پر صوبائی وزراء حاجی علی مدد جتک، میر ضیاء اللہ لانگو، سر دار عبد الرحمن کھیتران، میر شعیب نو شیروانی اور ترجمان حکومت بلو چستان شاہد رند بھی موجود تھے،وزیر اعلی بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان میں حکومت کی تشکیل مکمل ہوگئی ہے وزرا کو قلم دان مل گئے ہیں
ہم نے 60نکاتی اصلاحات تیار کرلی ہیںاس پر وزرا ء کام کریں گے جس کے بعد صوبے میں بہترین گورننس لیکر آئیں گے ، صوبے میں ہو نے والے بد امنی کے واقعات کے بعد وزیر داخلہ کو امن وامان کی بہتری کا ٹاسک دے دیا ہے وہ تمام سیکورٹی اداروں کے ساتھ بیٹھ کر کام کریں گے تاکہ عوام خود کو اپنے گھروں میں خود محفوظ تصور کر سکیں۔ وزیر اعلیٰ میرسرفراز بگٹی نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی بنانے جا رہے ہیں جس میں اپوزیشن کو بھی شمولیت کی دعوت دیں گے کمیٹی تشدد کے راستے کو روکنے کے لئے ڈائیلاگ کرے گی ہم تمام لوگوں کے ساتھ بات کریں گے ایک کمیٹی تمام سیا سی جماعتوں نے بات چیت کرکے بلو چستان کے امن و امان کی صورتحال کو بہتری کی جانب گامزن کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ لاپتہ افراد کی تصدیق نہیں کر سکتے کہ وہ کہاں ہیں جنہیں لاپتہ قرار دیا جاتا ہے ان میں سے بعض ایسے افراد ہیں جو دہشت گردی کے واقعات میں اب بھی ملوث پائے گئے ہیں،
80فیصد لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہو چکا ہے لاپتہ افراد کو پروپیگنڈہ ٹول بنا کر ریاست اداروں کے خلاف استعمال کر نا نامناسب ہے لاپتہ افراد کی بازیابی ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن تعین کرنا ہوگا کون ہے جو لاپتہ افراد کی لسٹ میں شامل ہوگا بعض لاپتہ افراد اب بھی علیحدگی پسند تنظیموں کے لئے کام کر رہے ہیںالزامات لگانا نا مناسب عمل ہے بلوچستان میں دہشت گردی کرنے والوں کی پناہ گاہیں آج بھی افغانستان میں ہیں بعض فنڈڈ تنظیمیں بلوچستان میں دہشت گردی کر رہی ہیں بلوچستان میں قیام امن کے لئے ہوم ورک کرکے وفاق کے پاس جائیں گے وفاق کو قیام کے امن کے لئے لانگ ٹرم پالیسی بنانے کا کہیں گے۔انہوں نے کہا کہ کوہلومیں میر نصیب اللہ مری کے کیمپ پر ہو نے والے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کر تے ہیں اور عوام کو یقین دلا تاہوں کہ حکومت اپنی رٹ قائم کریگی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ دہشت گردوں کو آزاد نہیں چھوڑا جاسکتا ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر شخص اور اداروں کو کردار ادا کرنا ہوگا بلوچ مزاحمت کاروں اور مذہبی دہشت گردی کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں ، انہوں نے کہاکہ بلو چستان میں فنانشل مسائل ہیں لیکن ہمیں محدود وسائل میں رہتے ہوئے گورننس میں بہتری لانی ہے تاکہ عام عادمی بھی مستفید ہو سکے ،
کب تک بلو چستان ما را ماری کا شکار ہے گا آخر اسکا حل تونکالنا ہوگا ناراض بلوچ کی ٹرم میڈیا کی بنائی ہوئی ہے وہی بتائیں کہ کون ناراض بلوچ ہیں ،ایک سوال کے جواب میں وزیر اعلی سرفراز بگٹی نے کہا کہ شہر کی صفائی میٹروپولیٹن کی ذمہ داری ہے کمشنر کوئٹہ کو ٹیم دی ہے او ر وسائل فراہم کر نے کی یقینی دہانی کروائی ہے کوئٹہ شہر کی صفائی کیلئے ہم سب نے ملکر کام کرنا ہے ،
انہوں نے کہاکہ نوشکی جیسے واقعات کی روک تھام کے لئے اقدامات کر رہے ہیں، شاہراہوں پر چیک پوسٹوں کا قیام ضروری ہے ہم اپنی شاہراہوں کو محفوظ بنائیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پی ایس ڈی پی کی کتاب تمام مسائل کا حل اور مسائل کی جڑ بھی ہے تمام اراکین اسمبلی چاہتے ہیں بلو چستان بہتری کی جانب گامزن ہو پوری ٹیم اور اپو زیشن کے
ساتھ مشاور ت کر نے کے بعد ایک ایسا لائحہ عمل بنائیں گے جس سے گورننس بہتر ہو سکے۔