بلوچستان میں جاری شورش کے تاریخی پس منظر سے رہنمائی حاصل کئے بغیر نہ ہی یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے اور نہ ہی کسی نتیجہ پر پہنچا جاسکتا ہے۔ بلوچستان میں دو قسم کی جنگیں اس وقت چل رہی ہیں۔
ایک بلوچ مزاحمت کار یا پھر ناراض بلوچ کے نام سے جنہیں جانا جاتا ہے جبکہ دوسرا شدت پسند مذہبی تنظیمیں ہیں جو مختلف کارروائیاں کرتی آئی ہیں۔ بہرحال ریاستوں کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ ملک میں قیام امن کو یقینی بنایا جائے تاکہ اندرونی انتشار اور اس سے پیدا ہونے والی ہر قسم کی تباہی سے بچا جاسکے۔
ویسے بھی جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں جنگوں نے ہمیشہ تباہی مچاہی ہے، انسانی بحران پیدا کیا ہے، ریاستیں سیاسی و معاشی عدم استحکام کا شکار رہی ہیں۔ دنیا کی دو عظیم جنگوں کے بعد فریقین نے امن کو ترجیح دی اور مسائل کا حل ڈائیلاگ کے ذریعے نکالا جو فریقین کیلئے قابل قبول تھا۔ بلوچستان میں بلوچ مزاحمت کار یا ناراض بلوچ موقف اپناتے ہیں کہ دہائیوں سے ہماری سر زمین کے وسائل لوٹے جارہے ہیں اور صوبے کے معاملات بھی اسلام آباد سے چلائے جاتے ہیں اہمارے پاس کوئی اختیارات نہیں، ہماری شناخت ختم کرنے کی کوشش کی گئی، کبھی بھی سنجیدہ ڈائیلاگ کی کوشش نہیں کی گئی اوربلوچ عوام پر بہ زور طاقت اپنی مرضی مسلط کی گئی اور ہمیں ہر دور میں لاشوں کے تحفے دئیے گئے۔
بہرحال حالیہ بلوچستان کی شورش میں شدت 26 اگست 2006ء کے بعد پیدا ہوئی جب بلوچستان کے سینئر سیاستدان ،سابق گورنر، وزیراعلیٰ بلوچستان بگٹی قبائل کے سربراہ نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کا واقعہ رونما ہوا جس پر نہ صرف بلوچ قوم، بلوچستان کی قوم پرست اور مذہبی جماعتوں سمیت پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا کہ سابق آرمی چیف جنرل ( ر) پرویز مشرف کا یہ اقدام غلط تھا جبکہ پرویز مشرف کی جانب سے یہ موقف سامنے آیا تھا کہ مذاکراتی ٹیم پہاڑ کے غار کے اندر موجود نواب اکبر خان بگٹی سے مذاکرات کرنے کیلئے گئی تھی کہ اچانک دھماکہ ہو ا جس سے نواب اکبر خان بگٹی شہید ہوگئے جبکہ کسی بھی سیاسی و مذہبی جماعت نے یہ بات تسلیم نہیں کی۔
بہرحال اس سانحہ کے بعد غم و غصہ شدیدبڑھ گیا اور بڑی تعداد میں بگٹی قبائل کے لوگوں سمیت دیگر بلوچوں نے پہاڑوں کا رخ کیا ۔سانحے کے خلاف ایک گرینڈ جرگہ بھی بلوچستان کے قبائلی عمائدین کا خان آف قلات آغا سلیمان داؤد کی سربراہی میں منعقد ہوا، جرگے کے دوران قبائلی عمائدین نے واقعے کی مذمت کے ساتھ ایک اعلانیہ بھی جاری کیا مگر اس کے بعد جرگہ کمیٹی غیر فعال ہوگیا۔
بلوچستان میں جنگجو گروپس کی تعداد بڑھتی گئی اور یہ بلوچستان کے دیگر اضلاع میں پھیلتے گئے۔
پرویز مشرف کے دور سے لے کر پی ٹی آئی حکومت تک بلوچستان میں مذاکرات کی بات کی گئی مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا البتہ اسی جنگی ماحول میں لاپتہ افراد کے مسئلے نے سر اٹھایا۔ یہاں بھی دو الگ رائے پائی جاتی ہیں ریاست کہتی ہے کہ لاپتہ افراد کی تعداد اتنی نہیں ہے جتنی بتائی جاتی ہے اور بیشتر افراد اپنی مرضی سے بیرونی ممالک گئے ہیں ۔
جبکہ بلوچ قوم پرست جماعتیں دعویٰ کرتی ہیں کہ لاپتہ افراد سیکیورٹی اداروں کے پاس ہیں جبکہ سیکیورٹی ادارے اس بیان کو مسترد کرتے ہیں۔ اس معاملے پرکمیشن بھی بنتے رہے ، عدالتوں میں بھی سماعت ہوتی رہی مگر آج تک یہ مسئلہ جوں کا توں ہے ۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس کے دوران پہاڑوں پر جانے والوں سے بات چیت کا عندیہ دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پہاڑوں پر جانے والوں سے بات چیت کیلئے کمیٹی بنا رہے ہیں، یہ کمیٹی پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں، پارلیمنٹ سے باہر کی جماعتوں اور قبائلی شخصیات سے بات چیت کرکے حتمی رائے تیار کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کو آزاد نہیں چھوڑا جاسکتا،
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر شخص اور اداروں کو کردار ادا کرنا ہوگا، بلوچ مزاحمت کاروں اور مذہبی دہشت گردی کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں، ناراض بلوچ کی اصطلاح میڈیا کی بنائی ہوئی ہے وہی بتائے کہ کون ناراض ہیں؟ان کا کہنا تھاکہ لاپتا افراد کے حوالے سے صرف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، لاپتا افراد کے 80 فیصد کیسز حل کرلیے گئے ہیں۔
بہرحال ایک بار پھر بلوچستان میں قیام امن کیلئے بات چیت کا آغاز ایک اچھی بات ہے جہاں تک ناراض بلوچ کے اصطلاح کی بات ہے تو یہ ٹرم ہر دور کے وزیراعظم اور حکومت نے اپنائی ہے کہ ہم اپنے ناراض بلوچوں کو منانے کیلئے تمام کوششیں کرینگے ،ان کے تحفظات دور کرینگے یہ میڈیا کا ٹرم نہیں رہا جبکہ لاپتہ افراد مسئلے پر بھی سابقہ حکومتوں کا موقف یہی رہا ہے کہ بیشتر لاپتہ افراد کو چھوڑ دیا گیا ہے جبکہ بعض نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی ہے یابیرون ملک فرار ہیں لیکن پھر انہیں لاپتہ افراد میں سے کچھ کی مسخ شدہ لاشیں بھی ملتی ہیںجس سے دوسرے فریق کی موقف کو تقویت ملتی ہے کہ اگر لاپتہ افراد اگر بیرون ملک گئے ہیں تو ان کی لاشیں یہاں سے کیوں مل رہی ہیں۔ بہرحال بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اعتماد کی فضا کو بحال کرنا ضروری ہے کیونکہ ماضی کے تجربات نے ریاستی وعدوں کی پاسداری کو مشکوک بنادیا ہے اور بلوچ مزاحمت کار اس پر کسی طرح اعتبار کرنے کو تیار نہیں ۔
اگرریاست سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو ہر مسئلے کا حل نکل سکتا ہے ورنہ طاقت کے استعمال سے معاملے کو کچھ وقت کے لیے ٹالا تو جاسکتا ہے ، اسے ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ تاریخ کا سبق یہی ہے، نہیں تو اس وقت بلوچستان میں پانچویں انسرجنسی نہیں چل رہی ہوتی۔