آئی ایم ایف نے نیا قرضہ دینے کے لیے پاکستان کو نئی تجاویز پیش کردیں۔آئی ایم ایف کا 15 مئی کو آنے والا وفد پاکستان کے لیے 6 سے 8 ارب ڈالر کے نئے بیل آئوٹ پیکج کے اہم نکات طے کرے گا تاہم اس سے قبل آئی ایم ایف نے پاکستان کو نئی تجاویز پیش کردی ہیں۔آئی ایم ایف نے مزید ٹیکس لگانے، بجلی، گیس مزید مہنگی کرنے، پنشنرز پر ٹیکس لگانے اور خسارے کے شکار سرکاری اداروں کو فروخت کرنے کی تجویز دی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایف بی آر پنشن نظام میں اصلاحات کے لیے تیار ہے اور ایک لاکھ سے کم پنشن والوں سے ٹیکس لینے یا تمام پنشنرز پر 10 فیصد ٹیکس لگانے جیسی تجاویز پر غور کررہا ہے جب کہ اس سلسلے میں حکومت بھی متحرک ہوگئی ہے۔آئی ایم ایف مشن کی آمد سے پہلے بجٹ اہداف طے کرنے، بجٹ اسٹریٹجی پیپر کابینہ سے منظور کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے لیے وزارتوں کو ہدایات جاری کردی گئیں ہیں۔وزارت خزانہ نے بجٹ بنانے کا کام بھی شروع کردیا ہے، قرض ادائیگی، دفاعی بجٹ اور ٹیکس وصولیوں سمیت دیگر اہداف طے ہونے پر آئی ایم ایف سے شیئر ہوں گے۔بہرحال ملک میں پہلے ہی سے بجلی اورگیس انتہائی مہنگی کی جاچکی ہے جبکہ صارفین کو مستقل بنیادوں نہ گیس مل رہی ہے اور نہ ہی بجلی نیز اووربلنگ کے ذریعے صارفین کو بھاری بھرکم بل بھیجنے کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔عوام پر اس وقت بوجھ بہت زیادہ ہے مہنگائی کی شرح کم رپورٹ تو کی جارہی ہے مگر مارکیٹوں میں ہر چیز مہنگی فروخت کی جارہی ہے جس پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ آئی ایم ایف نے مزید ٹیکسز لگانے کی شرط رکھی ہے جس کے بعد مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا جس سے براہ راست عوام ہی متاثر ہونگے۔ جہاں تک ایک لاکھ سے کم پنشن والوں سے ٹیکس لینے یا تمام پنشنرز پر 10 فیصد ٹیکس لگانے کی بات ہے تو اس میں بھی بیوہ خواتین، بزرگ ریٹائرڈ شہری ہی متاثر ہونگے جنہیں انتہائی کم پنشن ملتا ہے لہذا جو لاکھوں روپے پنشن وصول کررہے ہیں ان پر یہ شرائط لاگو کئے جائیں تاکہ غریب پنشنرز متاثر نہ ہوں۔ ٹیکس نیٹ میں ان لوگوں کو لانے کی ضرورت ہے جو کروڑوں اور اربوں روپے کمانے کے باوجود بھی ٹیکس نہیں دیتے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ تمام بوجھ عوام پر نہ ڈالے۔ خسارے کے شکار سرکاری اداروں کی نجکاری پہلے بھی کی گئی مگر ملازمین اس سے بہت زیادہ متاثر ہوئے، نجکاری کے بعد اداروں کی منیجمنٹ سب سے پہلے ملازمین کی بڑی تعداد کو فارغ کرنے کا پلان مرتب کرتی ہے اسکیم متعارف کرکے ملازمین کو یکمشت رقم ادائیگی کے بعد انہیں ملازمت چھوڑنے پرمجبورکردیتی ہے جبکہ ملازمین کی تنخواہوں میں بھی بڑے پیمانے پر کٹوتی کی جاتی ہے جس سے ان کی تنخواہ سکڑتی جاتی ہے اور سالانہ بجٹ میں تنخواہوں میں اضافے کے حکومتی اعلانات پر عملدرآمد بھی نہیں کیا جاتا ۔ دنیا بھر میں پرائیویٹ سیکٹر میں سب سے زیادہ مراعات ملازمین کو دی جاتی ہے مگر ہمارے یہاں مزدوروں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ اگر سرکاری ادارے مالی خسارے کا شکار ہیں تو اس کی ذمہ دار حکومتیں ہیں جنہوں نے اصلاحات کے ذریعے کبھی بھی بہتری لانے کی کوشش نہیں کی۔اداروں میں افسروں کی بھرمار ہے جن کی مراعات اتنے زیادہ ہیں جو ادارے کو لے ہی ڈوبتے ہیں جبکہ چھوٹے ملازمین کی صرف تنخواہ ہے جس سے ان کا گزارہ بھی مشکل سے ہوتا ہے نیز محکمہ کے فنڈز کو استعمال کرنے کا اختیار افسران کے پاس ہوتاہے جس میں کرپشن بھی بے تحاشہ ہوتی ہے۔ چھوٹے ملازمین کبھی ادارے پر بوجھ نہیں ہوتے بلکہ وہی تو ادارے کو چلاتے ہیںبہرحال اس غلط سوچ سے نکلنے کی ضرورت ہے کہ چھوٹے ملازمین کی وجہ سے ادارے ناکام ہوتے ہیں جبکہ ناکامی کی اصل وجہ اعلیٰ افسران ہوتے ہیں لیکن کوئی ان کا نام نہیں لیتا ۔ بہرحال آئی ایم ایف اپنے ہی شرائط پر قرضہ دے گا مگر حکومت نے اصلاحات اور منصوبہ بندی کے ذریعے اپنے عوام کو معاشی مسائل سے نکالنا ہے ۔لہذا موجودہ مہنگائی کے دور میںعوام پر مزید بوجھ ڈال کر ان کی مشکلات میں اضافہ نہ کیا جائے۔
آئی ایم ایف کے شرائط، عوامی مشکلات کم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے!
وقتِ اشاعت : May 4 – 2024