|

وقتِ اشاعت :   May 5 – 2024

گزشتہ 6 ماہ سے زائد عرصے سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے اور غزہ جنگ بندی کے حوالے سے جلد معاہدہ طے پانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

غزہ میں جنگ بندی معاہدے پر مذاکرات کے لیے قاہرہ میں امریکا اور مصر کی سربراہی میں بات چیت جاری ہے جبکہ اسرائیلی حکام اور حماس کی قیادت بھی مذاکرات کے لیے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں موجود ہے۔اس حوالے سے اسرائیلی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ قاہرہ میں غزہ جنگ بندی پر معاہدہ ہونے کا امکان ہے تاہم غزہ جنگ بندی معاہدے کے کئی مراحل ہوں گے۔اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج غزہ پر مزید حملے نہیں کرے گی اور حماس اسرائیلی مغویوں کو مرحلہ وار رہا کرے گا۔

اسرائیلی میڈیا نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اسرائیل فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر رضامند ہو گیا ہے اور اسرائیل شمالی غزہ میں فلسطینیوں کی واپسی نہیں روکے گا۔میڈیا رپورٹس میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ اسرائیل غزہ کے مصر سرحد سے متصل رفح علاقے پر حملہ نہیں کریگا۔

واضح رہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے جنون میں مبتلا اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو بارہا یہ بات کہہ چکے ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے رفح آپریشن ضرور ہو گا اور ہم حماس کے خاتمے تک جنگ جاری رکھیں گے۔دوسری جانب میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے قطری حکام کو واضح پیغام پہنچا دیا ہے کہ اسرائیل نے معاہدے کے لیے اپنی تجاویز پیش کر دی ہیں، اگر حماس معاہدہ نہیں کرتا تو انہیں ملک بدر کر دیا جائے۔ بہرحال اسرائیلی حملوں کے خلاف یورپ، امریکہ سمیت دیگر ممالک کی جامعات کے اسٹوڈنٹس سراپا احتجاج ہیں اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مظاہروں کے دوران متعدد طلبہ کو حراست میں لیا گیا ہے مگر اس کے باوجود احتجاجی مظاہروں کی شدت بڑھتی جارہی ہے جو ایک بڑا عالمی دباؤ بھی ہے۔ بہرحال جنگ بندی معاہدہ ایک اچھی پیش رفت ہے اگر اسرائیل معاہدے کی پاسداری کرے کیونکہ اسرائیل جنگی جنون سے باہر نہیں نکل رہا ۔معاہدے کے دوران ہی اسرائیلی قابض فوج لشکر کشی شروع کردیتی ہے

اگر یہ جنگ بندی ہوتی ہے تو اس کے مستقبل میں مثبت نتائج برآمد ہونگے۔ غزہ میں اس وقت صورتحال بہت گھمبیر ہے انسانی بحران نے جنم لیا ہے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہورہے ہیں، امدادی سرگرمیاں میں بھی انتہائی محدود ہیں، نقل مکانی بھی نہیں کرنے دی جارہی ۔ اس معاہدے سے غزہ کے عوام سکھ کا سانس لے سکیں گے مگر مکمل جنگ بندی کیلئے عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ مشرق وسطیٰ جو برسوں سے جنگ کی لپیٹ میں ہے، وہاں امن کی راہیں کھل جائیں اور جنگ کا خاتمہ ہو جائے تاکہ خطے میں جاری جنگ وسعت اختیار نہ کرے اور مزید تباہی کا سبب نہ بنے۔