صدر مملکت آصف علی زرداری نے بلوچستان میں تمام سیاسی قوتوں کے ساتھ بات چیت سے بلوچستان میں سیاسی و معاشی استحکام لانے کی بات کی ہے۔ بلوچستان میں جب تک تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر مشترکہ لائحہ عمل طے نہیں کیا جائے گا یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
گزشتہ چند دنوں سے بلوچستان کے سیاسی مسائل کے حل پر بات کی جارہی ہے اور تمام مسائل کے حل کی تلاش اور انہیں حل کرنے کے متعلق تجاویز اور رائے بھی دی جارہی ہے۔
یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ بلوچستان کو اہمیت دیتے ہوئے یہاں کے مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ لیا جارہا ہے کیونکہ گزشتہ چند برسوں کے دوران بلوچستان کا سیاسی مسئلہ قومی افق سے غائب تھا، اب مسلسل اس پر بحث و مباحثہ کے ساتھ اہم اجلاسوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے ،ڈائیلاگ کے سب ہی حمایتی ہیں اب باقاعدہ بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانے کیلئے حکمت عملی اور واضح روڈ میپ دینے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے تو بلوچستان کی تمام سیاسی قوتوں کو آن بارڈ لیتے ہوئے ان سے ملاقاتیں کی جائیں ،پھر ایک گرینڈ کانفرنس مدعو کیا جائے تاکہ بلوچستان کی تمام سیاسی قوتوں کے نمائندگان اپنی آراء سامنے رکھیں اورتحفظات، خدشات، گلے شکوئوںاور ان کے حل کے حوالے سے اپنی تجاویز دیں جس کے بعد حکومت لائحہ عمل طے کرکے مسئلے کو حل کی طرف بڑھائے۔
یہ ایک یا دو روز کے اندر ممکن نہیں اس میں کئی مہینے بھی لگ سکتے ہیں مگر شروعات ہونا ضروری ہے تاکہ بلوچستان کا دیرینہ سیاسی مسئلہ متفقہ طور پر حل ہوسکے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری کا گزشتہ روز وزیراعلیٰ ہائوس میں بلوچستان کی امن و امان کی صورتحال اور صوبے میں جاری ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بریفنگ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کچھ طاقتیں بلوچستان اور ملک میں استحکام نہیں چاہتیں، بلوچستان کے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کیلئے تمام سیاسی قوتوں سے بات چیت کرینگے۔
صدر مملکت نے کہا کہ دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ کا آپس میں گہرا تعلق ہے ، سمگلنگ ملکی معیشت کیلئے نقصان دہ ہے اور معاشی استحکام کیلئے اس کا تدارک ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرحدی علاقوں کی عوام کے روزگار کیلئے موثر حکمت عملی اپنائی جائے۔ صدر مملکت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر زور دیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں جاری رکھیں۔ اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف متفقہ قومی بیانیہ اپنانے کیلئے مشاورت شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ صدر مملکت نے کہا کہ بلوچستان کی پسماندگی اور عوام کی معاشی کمزوریوں کا مکمل ادراک ہے، نرسنگ سمیت مختلف شعبوں میں نوجوانوں کی تربیت کیلئے سندھ حکومت کے نظام کو نقل کیا جا سکتا ہے، بلوچستان کے تکنیکی طور پر ہنر مندنوجوانوں کی بیرون ملک نوکریوں کیلئے وزارت خارجہ کے ذریعے مختلف ممالک سے تعاون حاصل کیا جائے۔
صدر مملکت نے کہا کہ صوبے میں صحت کے مسائل زیادہ اور سہولیات دیگر صوبوں کے مقابلے میں کم ہیں، صحت سمیت مفاد عامہ کے مختلف شعبوں میں بلوچستان صوبہ سندھ کی خدمات سے استفادہ کر سکتا ہے ، دونوں صوبے مفاد عامہ کے مختلف شعبوں میں تعاون کیلئے مشترکہ طور پر لائحہ عمل طے کریں۔ صدر مملکت نے کہا کہ بلوچستان کی پسماندگی کے خاتمے کیلئے وفاق کی جانب سے مختص فنڈز کا بر وقت اجراء ناگزیر ہے، عوامی مفاد کیلئے چند منتخب منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں پر فنڈز جاری کیے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھی کینال کی آئوٹ سورسنگ کے امکانات پر غور کیا جائے، منصوبوں کی تکمیل کیلئے پبلک ،پرائیویٹ پارٹنرشپ کے نظام پر بھی غور کیا جائے۔
صدر مملکت نے کہا کہ بلوچستان کی زمینوں کو قابل کاشت بنانے اور پانی کی قلت کے حل کیلئے وسطی ایشیا سے پانی کی ترسیل اور سیلابی ڈیمز کی تعمیر کی ضرورت ہے۔ بہرحال صدر مملکت آصف علی زرداری نے بلوچستان کے تمام مسائل سمیت ترقیاتی منصوبوں پر بھی بات کی۔
بلوچستان کی محرومیوں و پسماندگی کے خاتمے کیلئے سیاسی استحکام انتہائی ضروری ہے تاکہ بلوچستان میں ترقی و خوشحالی کی طرف قدم بڑھائے جاسکیں کیونکہ بلوچستان کی عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے بہت سارے مسائل کا شکار ہیں ، انہیںبنیادی سہولیات تک میسر نہیں، معدنی وسائل، میگا منصوبوں، گوادر سی پیک جیسے اہمیت نوعیت کے بڑے منصوبوں کے باوجود بھی بلوچستان کی عوام کاجدید ترقیاتی دور میں بھی پیچھے رہنا زیادتی ہے ۔بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے اب سیاسی مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔.
امید ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں بلوچستان میں سیاسی استحکام کے حوالے سے بات چیت میں اہم پیشرفت ہوگی جس سے خطے کے دیرینہ مسائل حل ہونے میں مدد ملے گی۔