آئی ایم ایف کے مطالبے پر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگانے کی تیاریاں مکمل کر لی گئیں، عالمی مالیاتی ادارے نے کہا ہے کہ صنعتوں کیلئے بجلی اور گیس کی سبسڈی ختم کی جائے۔
آئی ایم ایف نے قرض اور بجٹ مذاکرات سے پہلے معاشی چیلنجز ظاہر کر تے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ بجٹ میں ٹیوب ویل کی سبسڈی ختم کردی جائے۔توانائی اصلاحات کے بغیر پاکستانی معیشت خطرات سے دوچار رہے گی،آئندہ بجٹ میں توانائی کے شعبے میں مقررہ بجٹ سے تجاوز خطرناک ہوسکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے آئندہ بجٹ میں توانائی شعبے کے لیے پالیسی گائیڈ لائن فراہم کردی، آئندہ مالی سال بجلی و گیس کے ریٹ بروقت طے کیے جائیں جبکہ آئندہ بجٹ میں بجلی اور گیس کا سرکلر ڈیٹ بڑھنے نہ دینے کی ہدایت بھی کی۔آئی ایم ایف نے اپنی گائیڈ لائن میں آگاہ کیا ہے کہ آئندہ بجٹ میں ٹیوب ویل کی سبسڈی ختم کردی جائے اورآئندہ بجٹ میں ٹیوب ویل متبادل توانائی پر منتقل کرنے اور صنعتوں کے لئے بجلی کی سبسڈی بھی ختم کرنے کی ہدایت کی۔
آئندہ بجٹ میں توانائی کے شعبے میں مقررہ بجٹ سے تجاوز خطرناک ہوسکتا ہے۔
آئی ایم ایف کے مطالبے پر پاکستان بھر کے تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس لگانے کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔
آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ تنخواہ دار طبقے اور کاروباری شخصیات کو انکم ٹیکس کی ایک ہی کیٹیگری میں رکھا جائے، جس سے لوئر مڈل کلاس کی قوتِ خرید مزید گھٹے گی۔
تنخواہ دار طبقے کی بلند ترین قابلِ ٹیکس آمدنی کی حد نیچے لائی جارہی ہے،آئی ایم ایف نے حکومت کو پابند کیا ہے کہ انکم ٹیکس سے چھوٹ کی حد 50 ہزار روپے ماہانہ رہنے دی جائے، اس میں مزید رعایت نہ دی جائے۔
آئی ایم ایف کے قرض دینے اور شرائط کے بعد حکومت لازمی عملدرآمد کرے گی۔
بہرحال ملک میں سب سے بڑا مسئلہ ٹیکس وصولی کا ہے جس کیلئے اب حکومت کی جانب سے اقدامات بھی اٹھائے جارہے ہیں اور اصلاحات بھی لائی جارہی ہے مگر تاجر دوست اسکیم پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
ملک میں صاحب حیثیت لوگوں کی ایک کثیر تعداد ٹیکس نیٹ کے اندر موجود نہیں ہے جنہیں ٹیکس نیٹ میں لانا ضروری ہے اب صنعتوں کیلئے بجلی و گیس کی سبسڈی ختم کرنے پر صنعتکاروں کی جانب سے ردعمل بھی آئے گا پہلے سے ہی صنعتکار حکومت سے بہت سے مسائل پر ریلیف مانگ رہے ہیں اور پھر تعاون کے ساتھ آگے چلنے کی بات کررہے ہیں، اب حکومت صنعتکاروں کو کیسے قائل کرے گی یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔
بہرحالتنخواہ دار طبقہ سے ٹیکس وصولی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے اگر تنخواہ دار کی ماہانہ تنخواہ 50 ہزار روپے سے زائد ہے اس پر ٹیکس لگے گا تو یہ زیادتی ہے ،ہونا تو یہ چایئے کہ جو لاکھوں روپے تنخواہ لے رہے ہیں ان سے ٹیکس لیا جائے ۔ پچاس ہزارروپے والے تنخواہ دار کی موجودہ مہنگائی میں ٹیکس دینے سے ان کی مشکلات مزید بڑھیں گی۔