کوئٹہ : وزیر اعلی بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان کے مسائل کی جڑ پی ایس ڈی پی ہے ریاست بار بار مذاکرات کے لئے تیار ہے لیکن بہت سے لوگ مذاکرات کی بجائے سول نافرمانی چاہتے ہیں لوگوں کو بسوں سے اتار کر مارا جاتا ہے
جس کی اجازت نہ ہمارا مذہب اور نہ ہی ہماری روایات دیتی ہیں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شہری کے تحفظ کو یقینی بنائیں پورا پاکستان کہتا ہے
کہ بلوچستان کا مسئلہ طاقت کی بجائے بات چیت سے حل کیا جائے یہ بات چیت کس سے کی جائے وہ بات چیت کے لئے تیار نہیں جو ملک توڑنا چاہتے ہیں ناراض بلوچ یہاں کے نوجوان ہیں جن سے ہم بات چیت کریں گے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو بیوٹمز میں آرٹس کونسل آف پاکستان فیسٹیول کی اختتامی تقریب کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ میڈیا لاپتہ افراد سے متعلق حقائق کے مطابق رپورٹر ننگ کرے حکومتی نمائندوں کا موقف سیاق وسباق سے ہٹ کر شائع کرنے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں بلوچستان کے نوجوان ہمارا فخر ہیں گزشتہ روز فیسٹیول میں معروف فنکارہ ماہرہ خان کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا وہ ہماری روایات کے بر خلاف ہے نوجوان حقائق سے آگاہی حاصل کریں ۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا مسئلہ مذاکرات سے حل کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ بلوچستان میں گڈ گورننس سے بھی مسائل حل ہوسکتے ہیں
بلوچستان میں نوکریاں مارکیٹ میں فروخت ہورہی ہیںمیں نوکری فروخت ہونے نہیں دونگا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ ملازمتیں میرٹ پر دونگا اس حوالے سے نوجوان ہمیں سپورٹ کرتے ہوئے نوکری فروخت کرنے والوں کے بارے میں نوجوان مجھے آگاہ کریں ۔ ان کا یہ المیہ ہے کہ تاریخ ہم اپنی مرضی سے لکھتے رہیں قلات کا پاکستان سے الحاق سے متعلق بھی غلط فہمیاں پھیلائی گئیں افغانستان نے روز اول سے ہی پاکستان کی مخالفت کی بلوچستان میں بم دھماکوں کے تانے بانے بھی ہمسایہ ملک افغانستان سے ملتے ہیں 1970 میں جب نیپ کی حکومت بنی تو قابل اساتذہ کو بلوچستان سے نکال دیا گیابلوچستان میں تعلیمی نظام اس وقت تباہ حال اور زبوں حالی کا شکار ہے جب اساتذہ کا قتل کیا گیا اس سے بھی تعلیمی پسماندگی بڑھی۔
ان کا کہنا تھا کہ مسائل کی جڑ پی ایس ڈی پی ہے پی ایس ڈی پی کسی باہر کے بندے نہیں بنائی اس لئے ہم نے ماضی کی روش کو ختم کرکے آگے بڑھنا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ نواب اکبر بگٹی نے اپنے چچا کو قتل کیا عدالتوں نے انہیں سزائیں سنائیں مگر ریاست نے ان کے گناہ معاف کئے۔
اسی طرح نواب خیربخش مری کے مقدمے بھی ریاست نے معاف کئے۔ نوابزادہ بالاچ مری کو لندن سے لایا گیا اور الیکشن جتوایا گیا ریاست بار بار مذاکرات کیلئے تیار ہے بہت سے لوگ مذاکرات کی بجائے سول نافرمانی چاہتے ہیںہر شہری کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے پورا پاکستان کہتا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ طاقت سے حل نہ کیا جائے تو بلوچستان میں مذاکرات کس سے کئے جائیں جو ملک توڑنا چاہتے ہیں۔
ناراض بلوچ یہاں کے نوجوان ہیں ان کے ساتھ بات کرینگے بلوچستان کے رہنے والے باصلاحیت نوجوانوں کو گلے لگانا میرا فرض ہے ۔ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ اگلا فیسٹیول گوادر میں ہوگا ہر تین ماہ بعد فیسٹیول ہوگا نوجوانوں کا غصہ برحق ہے وہ حکومت کی وجہ سے ریاست سے ناراض ہیں نوجوانوں کے ہر سوال کا جواب دونگا ۔
مجھے پتہ ہے کہ بلوچستان میں تعلیم، صحت دیگر شعبے لاپتہ ہیں لیکن ان تمام کی ذمہ داری ہماری ہے پنجاب سے آکر کسی وزیر اعلیٰ نے یہاں مسائل پیدا نہیں کئے بلکہ یہ مسائل ہمارے پیدا کردہ ہیںکیونکہ سارا سسٹم ،میرٹ کوہم نے تباہ کردیا ہے پی ایس ڈی پی کی کتاب پر اگر یونیورسٹی پی ایچ ڈی کرانا چاہے تومعلوم ہوجائے گاکہ تمام مسائل کا جڑپی ایس ڈی پی کی کتاب ہے جس کا جو جی چاہتا ہے وہ فرضی اسکیم ڈال دیتا ہے اگر کوئی 10 کلو میٹر روڈ 40سال میں مکمل ہوتا ہے اس کی ذمہ داری ہماری ہے۔
انہوں نے کہا کہ نواب خیر بخش کوئٹہ میں سرکل لگاتے تھے نواب اکبر بگٹی نے اپنے چچا کو قتل کیا سیشن کورٹ نے انہیں سزا موت سنائی ہماری ریاست نے انہیں معاف کردیا ۔نواب خیر بخش مری، سردار عطاء اللہ مینگل، میر غوث بخش بزنجو سارے لوگ حیدر آباد سازش کیس میں مقید تھے ریاست نے انہیں چھوڑ دیا نواب خیر بخش مری انگلینڈ سے افغانستان گئے تھے پاکستان سے نہیں گئے۔ جب وہاں حالات خراب ہوئے تو نواب خیر بخش کو سی ون 30 طیارے کے ذریعے پاکستان لایا گیا۔
نوابزادہ بالاچ مری انگلینڈ سے لائے گئے اور 2002کا الیکشن جتوایا گیا اور وہ بلوچستان اسمبلی میں صرف ایک دن آئے ۔ حکومت مذاکرات کے لئے تیار ہے کس سے بات کریں کوئی بات کرنے کے لئے تیار نہیں لوگوں کو بسوں سے اتار کر مارتے ہیں اس کی ہماری روایات اور اسلام اجازت نہیں دیتا لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔