|

وقتِ اشاعت :   April 16 – 2016

ملکی تاریخ میں وطن عزیز کی سیاسی افق پر مطلع کھبی بھی صاف نہیں رہا بلکہ بارہا قہر آلود ،زہر آلود اور یہاں تک کہ خون آلود بھی رہا ۔ملکی حکمران طبقہ جو چند گنے چنے جانداروں پر مشتعمل ہے باریاں بدلتے رہے ہیں۔ سیاسی منظر نامہ پر نظر رکھنے والوں کو یہ تاریخی جملہ نہیں بھولے گا کہ اُدھر تم اِدھر ہم اور اب وقت کے ساتھ ساتھ اس مشہور جملے کو ذرا رد و بدل کے ساتھ یوں پڑھیئے کہ کھبی تم اور کھبی ہم ۔عوامی خدمت کے جزبات اور ملکی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت سے یکسرعار ی اور شاہانہ مزاج رکھنے والی بشر جو خود کو اعلی مخلوق سمجھ کر پاکستانی عوام کو اپنی رعیت جان کر ان کا بے رحمانہ استحصال کرتی ہے اور اس لوٹ مار میں وفاق کے دونوں پارٹیاں جو صرف ایک ایک صوبے میں محدود ہو کر رہ گئی ہیں ایک دوسرے سے بازی لیجانے کی کوششوں میں مصروف ہیں دونوں پارٹیوں نے اپنی ایا م شاہی میں کھبی بھی توقیر حاصل نہیں کی اور یہ مقافات عمل کے نادیدہ شکنجے میں بھی آئے ۔ان میں سے ایک پارٹی کے سربراہ نقرہ کے کڑے پہنا کے دیار حرم میں سلطانی ظیوف بنا کر بھیجا گیا وہاں ان کی کسی خاطر مدارت کی گئی اللہ جانتا ہے زہے نصیب کے وہ آزما یا ہوا بلند بخت وطن عزیز کی مجبوری بن کر مسند اقتدار پر براجما ن ہو کر شیر شاہ سوری کے دور کی شاہراہوں پر دور جدید کے کاریں دوڑانے کی کوشش کررہا ہے یہ سب کو علم ہے شاہراہوں اور کاروں میں ہم آہنگی کتنی ضروری ہے ورنہ سڑ ک توڑنی پڑیگی یا کار بدلنی ہوگی موجودہ جمہوری حکومت جو خود جمہوریت کے مفہوم اور لذت سے نا آشنا ہے ملک کے چاروں وحدتوں میں کامیابی حاصل نہ کرسکی ۔ مرکزی حکومت کے کارناموں سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ ابھی ان کو اور ان کے کرتا دھرتاؤں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ جمہور ھذا چار وحدتوں پر مشتعمل ہے ان کے نزدیک ترقی اور سہولیات صرف شاہراہیں تعمیر کرنے کا نام ہے تعلیم ، صحت، امن و امان ،مہنگائی ،برقی قلت، خوراک کی ارزانیان، صاف پانی کی فراہمی یہ عیاشیوں میں شمار ہوتے ہیں حکمران طبقہ کے لیئے غذائی اجناس بشمول پانی باہر سے منگوایا جاتا ہے ان کے محلات میں ولا یتی برقی جنریٹر ان کے برقی ضروریات پوری کرتی ہیں ان کے اولاد مغربی ممالک میں درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کے بنک کے کھاتے باہر کے ممالک میں درھم و دینار اور پونڈ سے بھرے ہو تے ہیں ۔ایک دوسری وفاقی حکومت جو ملک کے استحکام کی ضامن سمجھا جاتا تھا ان کے کارکنوں کو علم نہیں کہ ان کا سربراہ کون ہے ایک ایسا شخص جو اپنے دیگر لاحق تحسین کارناموں کے باوجود اپنی سحر انگیز مسکراہٹ جو ان کے چمکتے دانت اپنے مخاطب کو لوٹتے ہیں عذر علالت کے سوالی ایمبولنس میں ایک صحرائی جزیرے میں شفاخانے کو جاتے ہیں لیکن ان کے اپنے ملک میں عوام انہی کے دور شاہی میں چند روپوں کے دوائیوں کے حصول کے لیئے تڑپ کر جان دیتے ہیں یہ دوسری بات ہوگی کہ ان شہزادے کے شامی دستوں کے لٹریچر کے جمگٹے میں کوئی مرے تو مرے ان کے کہتے ہیں عوام دوست حکمران اور اب یہ مقافات عمل کے بے رحم زنجیروں میں جھکڑے ہوئے ہیں اور وطن عزیز کی سرزمین ان کے قدموں سے سرکتی جارہی ہے اور وہ اداس نگاہوں سے اس مغموم عوام کی طرف دیکھ رہے ہیں جن کا خون چوس چوس کر کئی سرے محل تعمیر کرائے ۔حکمران طبقہ کے نزدیک ان کے اور ان کے اہل و عیال اور شراکت داروں کے علاوہ ریاست میں کوئی دوسرا زی الروح حکمرانی کا حقدار نہیں ان کوذرا توفیق نہیں ہوتی کہ ان کے پڑوس میں ذرا جھانک کر دیکھیں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے صدر کا بچپن اور لڑکپن کیسے گزرا تھا ملکی وسائل کو دیمک کی طرح چاٹ کر یورپ کے پر سکون ماحول میں قیام کے باوجود سکون سے محروم اور بے سرو پا بیا نیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سارق کو کھبی سکون اور راحت نصیب نہیں ہوتی چاہیے چاہیے وہ دنیا جہاں کی آسائشیں کیوں نہ خریدے ۔ ھم بدلنا چاہتے تھے نظمِ مے خانے تمام آپ نے بدلا ہے فقط مے خانے کا نام