|

وقتِ اشاعت :   May 25 – 2024

بلوچستان میںبجلی کی فراہمی ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہی ہے ۔ اندرون بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں بجلی کی ٹرانسمیشن لائن ہی نہیں ہے اور جہاں بجلی ہے وہاں چوبیس گھنٹوں میںاس کی فراہمی ایک سے دو گھنٹے کے لیے ہوتی ہے، اور اس میں کوئی تخصیص نہیں کہ موسم سرما ہے یا گرما۔ ا ندرون بلوچستان کی بات ہی کیا کریں کہ کوئٹہ شہر کے مضافاتی علاقوں میں بارہ سے سولہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔

ملک بھر میں بجلی چوری ،کنڈا سسٹم اسی ادارے کے آفیسران کی ملی بھگت سے چل رہے ہیں بجلی چوروں کے خلاف ضرور کارروائی ہونی چاہئے اور جو بلز باقاعدگی سے ادا نہیں کرتے ان کے کنکشنز بھی فوری کاٹ دیئے جائیں مگر اس کی آڑ میں بجلی فراہم نہ کرکے سب کو اذیت میں مبتلا کرنا سراسر زیادتی ہے۔ بلوچستان کے زمیندار بجلی کی عدم فراہمی کے خلاف سراپاحتجاج ہیں ان کی فصلوں کو نقصان پہنچ رہا ہے جو بجلی کے بلز بھی ادا کررہے ہیں وہاں بھی 20 گھنٹے سے زائد کی لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے یہ عمل بالکل غلط ہے۔ چند ماہ قبل کیسکو کی جانب سے بجلی چوروں اور نادہندگان کے خلاف کارروائی جاری تھی سب نے اس کو سراہا مگر ایک مسئلہ اور بھی ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ کیا جاتا ہے اب کسان اور دیگر صارفین کس طرح سے بھاری بھرکم بلز ادا کرسکتے ہیں ایک میکنزم تو بننا چاہئے صارفین کو ریلیف دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بلوچستان زرعی صوبہ ہے بجلی اور پانی کی عدم فراہمی کے باعث زراعت کا شعبہ متاثر ہورہا ہے۔ سبزی، پھل، فروٹ، خشک میوہ جات سمیت دیگر فصلوں کی کاشتکاری متاثر ہونے سے کسانوں کو تو نقصان ہورہا ہے ساتھ ہی عوام کو مارکیٹ سے سستے داموں چیزیں نہ ملنے کی وجہ سے وہ بھی متاثر ہورہے ہیں۔ گزشتہ روز سینیٹ اجلاس کے دوران وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کاسینیٹ اجلاس میں نقطہ اعتراض پر جواب دیتے ہوئے کہنا تھا کہ بلوچستان میں 27 ہزار سے زائد ٹیوب ویلز ہیں جو 404 فیڈرز پر ہیں، ان پر 12 ہزار غیر قانونی ٹرانسفارمرز ہیں، وہ فیڈرز 96 فیصد نقصان پر چل رہے ہیں جس سے 80 ارب روپے کا نقصان ہے۔ان کا کہنا تھا ہمیں علم ہے کہ سرکاری اہلکار زائد بلنگ کرتے ہیں اور صارفین کو بجلی چوری بھی سکھاتے ہیں، میرے محکمے کے پاس قانون کی رٹ قائم کرنے والے اہلکار نہیں، یہ کام سکیورٹی فورسز کا ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے زرعی شعبے کے ذمے 641 ارب روپے کے واجبات ہیں، سینیٹر صاحب جرگہ کرکے کسانوں سے بجلی کے بل ادا کرا دیں، ہم 24گھنٹے بجلی دیں گے۔وزیر توانائی اویس لغاری کا کہنا تھا کہ بلوچستان کو 700 ارب روپے کی بجلی دی جاتی ہے اور سوا 400 ارب کا نقصان ہے،

بلوچستان کے وزیراعلیٰ کو کہہ چکے ہیں کہ وفاق کا جتنا شیئر ہے وہ ڈالیں گے۔اویس لغاری کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے ٹیوب ویلز جب شمسی توانائی پر چلے جائیں گے تو بجلی کا کنکشن کاٹنا پڑے گا، بلوچستان پاکستان کا اہم ترین حصہ ہے، پنجاب کو سبزی بلوچستان دیتا ہے۔جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ کا سینیٹ اجلاس میں کہنا تھا وزیرصاحب نے ہمیں چور بنا دیا ہے کہ ہم نے 600 ارب روپے کی چوری کی، انھوں نے اب ہمیں چور ڈاکو بنایا پہلے ہم صرف دہشت گرد تھے۔سینیٹر کامران مرتضیٰ کے اعتراض پر وزیر توانائی نے کہا کہ میری تقریر میں بتائیں چور کا لفظ کہاں ہے، نقصان کو نقصان نہ کہوں تو کیا کہوں، واپڈا بورڈ میں جے یو آئی ف کے نمائندے بیٹھے ہیں، ہم کون ہیں کسی کو چور بنانے والے، نقصان چاروں صوبوں میں ہے، سولرائزیشن کا کہہ رہا ہوں جیسے ہی بلوچستان حکومت کا میکنزم ملے گا اس کی طرف جائیں گے۔ بہرحال میکنزم صرف صوبائی حکومت کی نہیں بلکہ وفاقی حکومت کی بھی مشاورت ساتھ ہونی چاہئے کہ اس دیرینہ مسئلے کو کس طرح حل کیا جائے تاکہ بلوچستان کے کسانوں کو فصلوں کے سیزن میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کسانوں کیلئے بہترین سہولیات فراہم کرنا صوبائی اور وفاقی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے البتہ غیر قانونی کنکشنز اور بجلی چوری کو روکنے کیلئے بھی سخت اقدامات اٹھائے جائیں۔ متعلقہ ادارے کے اندر موجود مبینہ طور پر بجلی چوری میں ملوث آفیسران اور اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے تاکہ بجلی چوری کو روکا جاسکے اور کسانوں سمیت دیگر صارفین کو سستی بجلی کی فراہمی کے ساتھ ان کو بہتر سروس فراہم کی جاسکے۔