|

وقتِ اشاعت :   May 28 – 2024

ملکی معیشت کو بہتر سمت دینیکیلئے ٹیکس نیٹ میں ان شعبوں کو بھی لانا ہوگا جو اب تک ٹیکس نہیں دے رہے ۔

اس وقت ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس کا بوجھ عوام کے کندھوں پر ہے جو ہر چیز پر ٹیکس دے رہے ہیں، روز مرہ کی اشیاء سے لیکر گیس، بجلی کی مہنگی قیمت بلز کے ذریعے ادا کررہے ہیں مگر بڑے تاجر، سیاستدان، اہم شخصیات جن کی مختلف شعبوں میں براہ راست سرمایہ کاری ہے وہ ٹیکس ادا نہیں کرتے۔

بہرحال یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے چلتا آرہا ہے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا موجودہ ملکی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے کہنا ہے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی بڑھانے کے لیے ان شعبوں پر ٹیکس لگانا ہوگا جنہیں اب تک چھوٹ دے رکھی ہے، ریئیل اسٹیٹ اور زراعت جیسے شعبوں کو مزید چھوٹ نہیں دی جاسکتی۔ این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی کیے بغیر کوئی اصلاحات کامیاب نہیں ہوگی۔

بہرحال اگر دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک نے اپنی معیشت اور سرمایہ کاری کو وسعت دینے کیلئے سب پر یکساں ٹیکس لاگو کر رکھا ہے اور قانون کے تحت وہ سب ٹیکس نیٹ کے اندر موجود ہیں مگر اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سیاسی مداخلت اور شخصیات پر کوئی شفقت نہیں اور نہ ہی کوئی نظام سے بالا تر ہے۔ ہمارے ہاں تو زراعت، رئیل اسٹیٹ سمیت بڑی صنعتوں میں شخصیات کی خود سرمایہ کاری ہے جو اپنا اثر و نفوذ استعمال کرتے ہوئے ٹیکس نہیں دیتے .

اب تو دکانداروں نے بھی ٹیکس کی پالیسی کو مسترد کردیا ہے جبکہ زراعت سے منسلک دیگر شخصیات بھی زراعت پر ٹیکس لگانے کے خلاف اپنی رائے دے رہے ہیں اور ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ گندم، شوگر بحران میں ہم جیسے چھوٹے لوگ نہیں بلکہ بڑی سیاسی شخصیات ہی ملوث ہیں، ہمیں تو گندم اور شوگر کے سیزن کے دوران بھی مہنگے داموں ان کی خریداری کرنی پڑتی ہے لہذا پہلے نظام کو سب پر لاگو کرنے کیلئے ایک منظم طریقہ کار بنایا جائے پھر فکسڈ ٹیکس کی طرف بڑھا جائے۔

بہرحال اب موجودہ حکومت نے ایسے سخت اقدامات اٹھانے ہونگے جہاں ٹیکس نیٹ میں سب آسکیں۔ سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر ملکی مفاد کو ترجیح دینا ہوگا، اگر ٹیکس نظام بہتر نہیں ہوگا ملکی معیشت بھی بہتر نہیں ہوگی۔