پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان ٹکراؤ موجودہ حالات میں ملک کے سیاسی اور معاشی مفاد میںہر گز نہیں ،حالات سے سب ہی واقف ہیں کہ ملک اس وقت کس نہج پر کھڑا ہے، ہر طرف بحرانات ہیں، سیاسی اور معاشی عدم استحکام اپنی جگہ موجود ہے، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان شدید ترین اختلافات ہیں، سیاسی بات چیت کا راستہ نہیں نکل رہا۔ اس تمام صورتحال کے دوران اگر سیاسی جماعتوں خاص کر ن لیگ اور عدلیہ کے ججز کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے تو ملکی انتظامی امور متاثر ہوسکتے ہیں۔
یہ وقت صبر و تحمل کا ہے تمام آئینی اداروں کو اپنے حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے، ن لیگ کو گورننس کے ذریعے اپنی بہترین کارکردگی دکھانی چاہئے جبکہ ججز کے قلم اور فیصلے انہیں سرخرو کرسکتے ہیں۔
ماضی میں پارلیمان اور عدلیہ دونوںسے غلطیاں ہوچکی ہیں جن کا ازالہ کرنا چاہئے مگر ایک نئے اندرونی محاذ کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا خاص کر حکومتی جماعت اور عدلیہ کے درمیان ٹکراؤ بہت بڑے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔
اب اعلیٰ عدلیہ سے بھی جوابات سامنے آرہے ہیں گزشتہ روز سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کو جا کر بتا دیجیے گا کہ یہاں کوئی کالی بھیڑیں نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کی۔
سماعت کے دوران ایک موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا اٹارنی جنرل صاحب، وزیراعظم کو جا کر بتا دیجیے گا کہ سپریم کورٹ میں کوئی کالی بھیڑیں نہیں ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا وزیراعظم سے کہیں اگر سپریم کورٹ میں کوئی کالی بھیڑیں ہیں تو پھر آپ ان کے خلاف ریفرنس دائر کریں۔
واضح رہے کہ دو روز قبل وزیراعظم شہباز شریف نے مسلم لیگ ن کی جنرل ورکرز کونسل کے اجلاس میں تقریر کے دوران کہا تھا کہ ججز کی اکثریت ملکی خوشحالی پر متفق ہے لیکن عدلیہ میں موجود چند کالی بھیڑیں عمران خان کو ریلیف دینے پر تلی ہوئی ہیں۔ بہرحال حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ اداروں کو مل کر ملک کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرنے ہونگے تاکہ انتشاری اور غیر یقینی کی کیفیت پیدا نہ، اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو ملکی مسائل بڑھیں گے اور استحکام کا خواب پورا نہیں ہوگا۔