بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے نواحی علاقے میں ایک کان میں حادثے کے نتیجے میں 11 مزدور ہلاک ہو گئے۔
حادثہ کوئٹہ سے تقریباً 35 کلومیٹر دور سنجدی میں یونائیٹڈ کول مائننگ کمپنی کی کان میں پیش آیا جہاں کئی سو فٹ گہرائی میں گیس بھرنے کی وجہ سے دھماکہ ہوا۔ بلوچستان میں کوئلہ کانوں میں ہونے والا یہ پہلا حادثہ نہیں اس سے قبل بھی خطرناک حادثات رونما ہوچکے ہیں جس کی بڑی وجہ کوئلہ کانوں میں وینٹیلیشن کا مناسب نظام کا نہ ہونا ہے۔
اگر وینٹیلیشن کا مناسب انتظام ہو تو گیسوں کے جمع ہونے کی وجہ سے جو حادثات ہوتے ہیں انھیں روکا جا سکتا ہے۔
کانوں میں میتھین گیس اور کاربن مونو آکسائیڈ گیسیں ہوتی ہیں لیکن ان کی مناسب مانیٹرنگ کا نظام نہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر گیسوں کی مانیٹرنگ کا مناسب انتظام ہو تو ان کی موجودگی کا پتہ لگا کر ان کو کلیئر کرنے کے بعد کان کنوں کو بھیجا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں وہ محفوظ رہ سکتے ہیں۔
کانوں میں گیسوں کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے ڈیجیٹل ڈیٹیکٹرز ہوتے ہیں لیکن بلوچستان کی کانوں میں ان کے استعمال کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے کی بجائے پرانے طریقوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
اگر کان کے اندر 15 سے 20 فیصد گیس ہو تو اس سے ایک بہت بڑا دھماکہ ہو سکتا ہے۔یہ دھماکہ تصور سے بھی بڑا ہو سکتا ہے یعنی اس سے پوری کان بھی بیٹھ سکتی ہے۔
کوئلے کی کانیں ہزاروں فٹ گہری ہیں۔
اگر ان میں کوئی دھماکہ ہو جائے تو ہزاروں فٹ نیچے کان کنوں کے بچنے کے مواقع کم ہوتے ہیں۔
مائنز میں کام کرنے والوں کے صحت اور سلامتی کے لیے جو مجموعی پروٹوکول ہیں ان کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔
بہرحال کان کنی پوری دنیا میں ایک خطرناک کام ہے۔ ان خطرات کو حفاظتی انتظامات کو یقینی بنا کر کم کیا جا سکتا ہے۔
اس تناظر میں ہر مائنز انسپکٹر کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کانوں میں حفاظتی انتظامات کو یقینی بنائے لیکن بلوچستان کی ہزاروں کوئلہ کانوں کے لیے ان انسپکٹروں کی تعداد بہت کم ہے۔
ان کی تعداد صرف چھ سے سات ہے۔
بلوچستان سے کروڑوں ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے لیکن کارکنوں کے مسائل اور مشکلات کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔
یہ صوبائی حکومت اور کان مالکان دونوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کانوں میں حفاظتی انتظامات اور کان کنوں کی سہولیات کو بہتر بنائیں۔
بلوچستان میں مزدور تنظیمیں حکومت اور کان مالکان دونوں کو ان حادثات کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔
بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں صحت اور سلامتی کے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اس کی ایک بڑی وجہ ٹھیکیداری نظام ہے۔
کان مالکان لیز اپنے نام الاٹ کرانے کے بعد زیادہ تر خود کام نہیں کرتے بلکہ وہ ان کو ٹھیکیداروں کے حوالے کر دیتے ہیں اور پھر بڑے ٹھیکیدار آگے پیٹی ٹھیکیداروں کو یہ کام دے دیتے ہیں۔ٹھیکیدار کو کان کنوں کا خیال نہیں ہوتا بلکہ ان کی توجہ زیادہ پیسہ کمانے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوئلہ نکالنے پر ہوتی ہے۔
کوئلہ کی کانوں میں ہولناک حاثات جب رونما ہوتے ہیں تو کان مالکان خود کو حادثے سے بری الزمہ قرار دیتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کان مالکان کی جانب سے ان کی سیفٹی اور بہتری کے لیے جو بھی اقدامات ہو سکتے ہیں وہ کیے جاتے ہیں۔
کان مالکان کے ساتھ حکومت کوئی تعاون نہیں کرتی۔ بہرحال یہ ذمہ داری سب سے پہلے صوبائی حکومت کی بنتی ہے کہ وہ کوئلہ کانوں کا جائزہ لینے کیلئے ایک ٹیم تشکیل دے اور کانوں میں انتظامات اور سیفٹی کا جائزہ لے تاکہ اصل حقائق سامنے آسکیں اورجو بھی غفلت کے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے ،نیز کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی جانوں کی حفاظت کے حوالے سے مالکان کو پابند کریں تاکہ قیمتی جانوں کے ضیاع کا سلسلہ رک سکے۔