وفاقی حکومت نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے پر نظرثانی کیلئے کام شروع کردیا۔ذرائع کے مطابق وفاقی وزارت تجارت کو افغان ٹرنزاٹ ٹریڈ معاہدے پر نظرثانی کی تجاویز تیار کرنے اور اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی ہدایت کی گئی ہے۔
وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ وزارت تجارت افغانستان کی حقیقی امپورٹ ضروریات سے آگاہ کرے۔
انہوں نے یہ بھی حکم دیاکہ کھاد اور چینی سمیت اشیائے ضروریہ کی اسمگلنگ روکنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے وزارت تجارت سے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی۔ دوسری جانب حکومت نے اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے بارڈر کنٹرول اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کرلیا اور وزارت داخلہ کو بارڈر کنٹرول اتھارٹی کے قیام سے متعلق ٹاسک سونپ دیا ۔
وزارت داخلہ بارڈرکنٹرول اتھارٹی کے قیام کیلئے وزارت قانون اور ایف بی آر سے مشاورت کرے گی، بارڈر کنٹرول اتھارٹی کے ذریعے اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے تمام ادارے مشترکہ رسپانس دیں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت ملک میں اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا تھا
جس میں افغان ٹرنزٹ ٹریڈ کے حوالے سے اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ بھی پیش کی گئی تھی۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں اسمگلنگ کرنے والوں کی سہولت کاری سرکاری افسران کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم نے رپورٹ میں شامل افسران کو عہدوں سے فوری ہٹا کر محکمانہ کارروائی کی ہدایت کی تھی۔
گزشتہ کئی برسوں سے اسمگلنگ کا یہ غیر قانونی عمل باقاعدہ سرکاری آفیسران کی سرپرستی میں چل رہا ہے افغان سرحد سے لے کر ملک کے کونے کونے تک اسمگلنگ کے سامان پہنچائے جاتے ہیں جس میں کوئی شبہ نہیں کہ سرکاری مشینری استعمال نہ ہورہی ہو۔
بہرحال ان آفیسران سمیت دیگر اہم شخصیات بھی اسمگلنگ میں ملوث ہیں جن کا سیاست سمیت انتظامیہ معاملات سے براہ راست تعلق ہے۔
سرحد پر اسمگلنگ کی روک تھام پر حکومت ایکشن میں نظر آتی ہے مگر اس کے بعد پھر معاملہ سرد خانے کی نظر ہو جاتا ہے جب تک عملی طور پر سرحد پر اسمگلنگ کی روک تھام سمیت سرکاری مشینری کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔