مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان اندرون خانہ بہت سارے معاملات پیچیدہ ہیں جن سے ن لیگ کی قیادت کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی بڑی وجہ پیپلز پارٹی کا قومی اسمبلی میں کردار ہے۔
اس کے ممبران کی قومی اسمبلی میں ایک اچھی خاصی تعداد ہے جو اس پوزیشن میں ہے کہ وہ اپوزیشن کو سپورٹ کرے تو ان کا پلڑا بھاری ہو جائے گا اور ن لیگ کی اتحادی حکومت کی مشکلات بڑھ جائینگی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اپنی مضبوط پوزیشن کے ذریعے حکومت پر حاوی ہے جس کی جھلک بجٹ سیشن میں چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کی عدم شرکت اور پارٹی کی جانب سے بجٹ پر تحفظات کا اظہار ہے۔
یقینا ایسی صورتحال میں ن لیگ کی اتحادی حکومت خاص کر وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں اور بجٹ کی منظوری بڑا مسئلہ بن جائے گا اگر پیپلز پارٹی حمایت نہ کرے۔
اب دونوں جماعتوں کے درمیان بات چیت کا عمل تیزی سے جاری ہے اور ن لیگ ہر حالت میں پیپلز پارٹی کے مطالبات تسلیم کرے گی۔مسلم لیگ (ن) نے وفاقی بجٹ کے معاملے پر مذاکرات میں پیپلزپارٹی کو تمام تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرادی ہے۔ذرائع کے مطابق کمیٹی سطح پرمذاکرات میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے کیساتھ گلے شکوے کیے۔مسلم لیگ ن نے بجٹ کے موقع پر تحفظات سامنے لانے پر شکوہ کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ پی ڈی ایم حکومت کے دوران بھی آپ نے بجٹ کے موقع پر سیلاب فنڈ کوایشو بنالیا تھا۔
ن لیگی قیادت نے یہ بھی شکوہ کیا کہ بجٹ تیار کرتے وقت بنیادی نکات سے وزیراعلیٰ سندھ اور سینیئر رہنماؤں کو اعتماد میں لیا گیا تھا، اس کے باوجود بجٹ پیش کیے جانے کے بعد احتجاج اور تحفظات مناسب نہیں تھے۔ ن لیگ کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ پنجاب اور وفاق میں آپ کابینہ میں شامل نہیں ہوتے، بارہا آپ کو مدعو کیا گیا، اہم آئینی عہدے بھی پیپلز پارٹی کو اس کی منشاء کے مطابق دیے گئے۔
دوسری جانب پیپلزپارٹی نے شکوہ کیا کہ آپ ہمیں ایک طرف اتحادی سمجھتے ہیں مگر دوسری طرف آپ ہمیں اعتماد میں نہیں لیتے، ہم نے وزیراعظم، اسپیکر سمیت تمام اہم معاملات پر ن لیگ کا ساتھ دیا۔پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ ہم اب بھی ساتھ چلنے کو تیار ہیں، ہمارے تحفظات دور ہونے چاہییں۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا تھا جس کے بعد حکومت کو کورم پورا کرنے میں پریشانی کا سامنا تھا۔
تاہم ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار نے بلاول بھٹو سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی تھی اور انہیں منانے میں کامیاب ہوگئے تھے جس کے بعد پی پی کے ارکان بجٹ اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف سے پی پی چیئرمین بلاول نے ملاقات کی تھی جس میں بلاول بھٹو نے انہیں اپنے تحفظات سے بھی آگاہ کیا تھا۔بلاول بھٹو نے شکوہ کیا تھا کہ حکومت کسی فیصلہ سازی میں ہمیں اعتماد میں نہیں لے رہی اور سندھ کے مختلف منصوبوں میں وفاقی حکومت سنجیدگی کامظاہرہ نہیں کررہی۔
وزیراعظم نے بلاول بھٹو کو تمام تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرادی جس پر پی پی چیئرمین نے بجٹ کی منظوری میں تعاون کرنے کی یقین دہانی کرادی ہے۔
بہرحال دونوں جماعتوں کی جانب سے گلے شکوے تو کئے جارہے ہیں مگر آگے چل کر بھی مسائل پیدا ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا جب تک پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ کا حصہ بن کر حکومتی اتحاد میں شامل نہیں ہوگی ن لیگ کی جانب سے پیپلز پارٹی کے مطالبات تسلیم کئے جاتے رہینگے۔ اگرچہ اس وقت سب سے زیادہ پیپلز پارٹی مستفید ہورہی ہے اور ن لیگ دباؤ میں ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی ایک بڑی خواہش حکومت میں آنے کی بلاول بھٹو زرداری کے وزیراعظم بننے کی تھی جو کہ سادہ اکثریت نہ ملنے پر حکومت سازی کی طرف نہیں گئی۔
تجزیاتی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ن لیگ کو خطرہ لاحق ہے کہ اگر پیپلز پارٹی اپوزیشن جماعتوں اور ن لیگ کے اتحادی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں شروع کردیں اور شرط بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم بنانے کی ہو تو ن لیگ تنہا رہ جائے گی۔ ملک میں پہلی بار ایسا نہیں ہوا ہے کہ چند برسوں میں اقتدار کسی کے ہاتھ سے نہ گئی ہو اور اتحادی بھی ساتھ نہ چھوڑ چکے ہوں۔
ایسی متعدد مثالیں تاریخ میں موجود ہیں لیکنفی الحال پیپلز پارٹی ہوا کا رخ دیکھ کر اپنے پتے کھیل رہی ہے اور بہتر انداز میں حکومتی حصہ نہ ہوکر بھی اپنے کام کروارہی ہے۔
مستقبل میں کیا ہوگا کچھ کہا نہیں جاسکتا ،کبھی بھی تبدیلی آسکتی ہے مگر موجودہ حالات کے پیش نظر پیپلز پارٹی اسی طرح سے اپنی پوزیشن میں رہتے ہوئے اپنے کام کرواتی رہے گی اگر کہا جائے کہ ن لیگ کی حکومت تو ہے مگر پیپلز پارٹی حکومت سے زیادہ اپنے کام کروارہی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔