|

وقتِ اشاعت :   April 19 – 2016

اسلام آباد: سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کے دوران وکیل دفاع نے خصوصی عدالت کو بتایا کہ حکومت نے ‘قوانین میں نرمی’ کرکے سابق آمر کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی تھی. میجر جنرل (ر) راشد قریشی کی جانب سے دائر درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وفاقی حکومت کے پاس ملزم پرویز مشرف کی نقل و حرکت محدود کرنے کے اختیارات موجود تھے، لیکن اس پر عمل نہیں کیا گیا. واضح رہے کہ پرویز مشرف کے سابق ترجمان میجر جنرل (ر) راشد قریشی نے عدالت میں اپنی جائیداد کی واپسی کے حوالے سے بھی ایک پٹیشن دائر کررکھی ہے، جو انھوں نے غداری کے مقدمے کی سماعت کے دوران مشرف کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے ضمانت کے طور پر جمع کروائی تھی. عدالت کے پاس جنرل قریشی کے اسلام آباد کے سیکٹر ای 11 میں واقع گھر کی رجسٹری موجود ہے، لیکن وہ چاہتے ہیں کہ عدالت ان کے گھر کی رجسٹری واپس کرکے 25 لاکھ روپے کے پرائز بونڈز بطور ضمانت رکھ لے. اپنی درخواست میں جنرل قریشی نے اصرار کیا کہ وہ اپنے سابق باس کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے واحد ذمہ دار نہیں تھے، بلکہ حکومت بھی ان کی نگرانی کرنے کی ذمہ دار تھی. درخواست کے مطابق ‘پاکستان سے باہر جانے کے قوانین برائے 2010 (ایگزٹ فرام پاکستان کنٹرول 2010) کے تحت اس صورتحال کے لیے ایک مکمل طریقہ کار موجود تھا، جو کسی بھی شخص کو بیرون ملک جانے سے روک سکتا ہے.’ تاہم درخواست گزار کا دعویٰ تھا کہ وفاقی حکومت نے جنرل پرویز مشرف کو ملک چھوڑنے سے روکنے کے لیے متعلقہ قوانین کا استعمال نہیں کیا. مزید کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ نے ‘خصوصی عدالت کے فیصلے کا مکمل علم ہونے کے باوجود ملزم کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے حوالے سے کوئی پابندی نہیں لگائی’. یاد رہے کہ رواں برس فروری میں خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا، لیکن ملزم اسی ماہ اُس وقت ملک سے باہر چلے گئے تھے جب حکومت نے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکال دیا تھا. پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا اعلان کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ انھیں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی. اپنی درخواست میں جنرل قریشی نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے سے متعلق فیصلہ دینے والے سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے بھی ان کی نقل وحرکت پر کوئی پابندی نہیں لگائی. مزید کہا گیا کہ ‘ملزم مفرور نہیں ہیں اور نہ ہی وہ عدالتی نظام کو شکست دینے کے مقصد سے ملک سے باہر گئے ہیں، بلکہ وہ حکومت کی جانب سے اجازت ملنے اور سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت ای سی ایل سے نام نکالے جانے کے بعد بیرون ملک گئے ہیں.’ مزید کہا گیا کہ ‘انھیں (جنرل قریشی) کو پختہ یقین ہے کہ طبی طور پر فِٹ ہوتے ہی ملزم (پرویز مشرف) جلد از جلد واپس وطن آجائیں گے’. آخر میں جنرل قریشی کا کہنا تھا کہ ‘وہ ایک ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں اور انھوں نے ہمدردی، خوف خدا اور مہربانی میں ملزم کی ضمانت دی، انھوں نے ملزم (پرویز مشرف) سے کوئی مالی فوائد حاصل نہیں کیے، جبکہ ان کا اور کوئی ذریعہ آمدنی بھی نہیں ہے، سوائے اس جائیداد سمیت محدود وسائل کے، جو ملزم کی شخصی ضمانت کے طور پر عدالت کے پاس موجود ہے.’ انھوں نے عدالت سے درخواست کی کہ ملزم کی ضمانت کے طور پر رکھوائی گئی جائیداد ضبط نہ کی جائے. واضح رہے کہ 31 مارچ کو مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران خصوصی عدالت نے ریمارکس دیئے تھے کہ اگر ملزم پرویز مشرف عدالت میں پیش نہ ہوئے تو ان کے ضامن کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم جاری کیا جاسکتا ہے. وکیل دفاع نے ایک اور بھی درخواست دائر کی جس میں پرویز مشرف کی ذاتی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست کی گئی اور کہا گیا کہ سابق صدر صحت یاب ہوتے ہی وطن واپس لوٹ آئیں گے. درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ شکایت گزار یعنی وزارت داخلہ کے اتفاق رائے سے سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی اوران کا نام ای سی ایل سے نکالا گیا تاکہ وہ اپنے علاج اور ڈاکٹروں سے مشاورت کے لیے ملک سے باہر جاسکیں.