|

وقتِ اشاعت :   June 25 – 2024

کوئٹہ: رکن قومی اسمبلی ازبل زہری نے کہا ہے کہ میرا تعلق بلوچستان سے ہے انتہائی زرخیز اور رقبہ کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے

لیکن مجھے یہ کہتے ہوئے سد افسوس ہوتا ہے کہ بلوچستان میں دہشتگردی دن بدن بڑتی جارہی ہے بلوچستان میں سٹیبلٹی دور دور تک نظر نہیں آتی ہے بلوچستان 1947سے لیکر اب تک بلوچستان کے ماوں اور بہنوں نے اپنے کندھوں پر صرف جوانوں کے لاشیں ہیں اٹھائے ہیں 16اپریل 2013میں ایسے ہی دہشتگردی کے ایک واقعے میں میرے بھائی میرے چاچا اور میرے چاچے کے بیٹے کو شہید کردیا گیا

ایک ہی گھر سے ہم نے تین لاشیں اٹھائی ہے میں ایوان بالا سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ ان کا قصور کیا تھا قصور یہی تھا کہ میرے والد نواب ثنا اللہ زہری نے خوشحال اور ترقی یافتہ بلوچستان کا خواب دیکھا تھا

یا قصور یا تھا ان خیالات کا اظہار قومی اسمبلی کے اجلاس سے رکن قومی اسمبلی ازبل زہری نے کہا کہ دہشتگردی کی خلاف آواز اٹھائی تھی میں خود ایک شہید کی بہن ہوں تو میں بخوبی دکھ و درد کو سمجھتی ہوں ہمارا دکھ کا خامیازہ کو بھرے گا ہماری تکلیفیں کون دور کرے گا ہمیں اور کتنی لاشیں اٹھانی پڑے گی اپنی کندھوں پر کب تک بلوچستان کے حالات بہتر ہوگا

میں خود ایک قبائلی خاندان سے تعلق رکھتی ہوں میں اور میرے والد لڑکیوں کی تعلیم کو سپورٹ کرنے میں ایک مثال ہے میں اپنے بلوچستان کے ان سب والدین سے مخاطب ہوکر کہتی ہوں جو کہتے ہیں ”کہ لڑکیوں کو تعلیم دو گے تو وہ خراب ہوئیں گے لڑکیوں کو تعلیم دو گے تو معاشرہ اجازت نہیں دیتا ”اور میں کہتی ہوں کہ اپنے بیٹیوں کو تعلیم دیں پھر آپ ان کو دیکھیں کہ ان کی اڑان کتنی کامیاب ہوتی ہے

پھر ان کی اڑان ہماری قوم کو کس حد تک لے جائے گی بلوچستان کی عورتیں کمزورنہیں ہے ہم ایک پرانے زمانے میں رہتے ہیں جہاں ہمیں مواقع دیئے گئے ہیں

ہم اس مواقع سے فائدہ اٹھا کر ملک کی خدمت میں سب سے آگے ہوں گے خضدار ایک بڑا شہر ہے وہاں پر نہ ہمارے پاس کوئی ہسپتال ہے اور نہ ہی کوئی ٹراما سینٹر ہیں جہاں ہم اپنے مریضوں کو صحت کے بنیادی سہولیات دے سکیں خضدار سے ہمارے مریضوں کو گھنٹوں گھنٹوں کا سفر طے کرکے کراچی جانا پڑتا ہے میں کہتی ہوں ہم لاوارث نہیں ہے ہم پاکستان کا اتنا ہی حصہ دار ہیں جتنا کہ اس ایوان میں سارے بیٹھے ہوئے لوگ ہیں ۔