گزشتہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں انسداد دہشت گردی کے لیے آپریشن عزم استحکام کی منظوری دی گئی تھی۔
نیشنل ایکشن پلان سے متعلق ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، وفاقی وزراء اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی شریک تھے۔
پاکستان تحریک انصاف سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کی گئی ہے اور پی ٹی آئی نے اسے ایوان سے منظور کرانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم آفس نے عزم استحکام آپریشن کے حوالے سے کہا ہے کہ بڑے پیمانے پر کسی فوجی آپریشن پرغور نہیں کیا جا رہاجہاں آبادی کی نقل مکانی کی ضرورت ہو، اور عزمِ استحکام کا مقصد پہلے سے جاری انٹیلی جنس کی بنیاد پر مسلح کارروائیوں کو مزید متحرک کرنا ہے۔ اعلامیے کے مطابق حالیہ اعلان کردہ وژن کا نام عزم استحکام رکھا گیا ہے، اس کا موازنہ گزشتہ مسلح آپریشنز جیسے ضرب عضب، راہ نجات سے کیا جارہا ہے، گزشتہ مسلح آپریشنز میں نوگو ایریاز میں ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والے دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ان کارروائیوں کیلیے مقامی آبادی کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی ضرورت تھی، اس وقت ملک میں ایسے کوئی نوگو ایریاز نہیں ہیں اور دہشت گردوں کی پاکستان میں منظم کارروائیاں کرنے کی صلاحیت کو شکست دی جا چکی ہے۔
عزم استحکام پاکستان میں پائیدارامن واستحکام کے لیے ایک کثیر جہتی وژن ہے، عزم پاکستان مختلف سکیورٹی اداروں کے تعاون اور پورے ریاستی نظام کا مجموعی قومی وژن ہے جس کا مقصد نظرثانی شدہ قومی ایکشن پلان کے نفاذ میں نئی روح اور جذبہ پیدا کرنا ہے۔
اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی اور ملکی استحکام کے لیے سیاسی اتفاقِ رائے سے شروع کیے گئے اس مثبت اقدام کی پذیرائی کرنی چاہیے، تمام غلط فہمیوں کو دور کرنے کے ساتھ اس موضوع پر غیر ضروری بحث کو بھی ختم ہوجانا چاہیے۔
بہرحال پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے دوران چینی باشندوں اور چینی منصوبوں کو نشانہ بنایا گیا جس پر چینی حکام کی جانب سے زور دیا گیا ہے کہ سیکیورٹی کے حوالے سے سخت اقدامات اٹھائے جائیں اور چینی منصوبوں، سرمایہ کاروں، چینی باشندوں کی سیکیورٹی کو فل پروف بنایا جائے۔ تجزیاتی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر اور چین کے ساتھ جاری سی پیک منصوبے کے پیش نظر آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
گزشتہ دنوں چینی کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے رکن اور وزیر لیوجیان چاؤ نے کہا کہ پاکستان اور چین کے اداروں اور سیاسی جماعتوں کو مل کر چلنا ہوگا، ترقی کے اہداف کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور ہماری قیادت کے درمیان سی پیک کی اپ گریڈیشن پر اتفاق ہوا ہے۔
سرمایہ کاری کے لیے سیکیورٹی صورتحال کو بہتر بنانا ہوگا کیوں کہ بہتر سیکیورٹی کی وجہ سے ہی تاجر پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے۔
البتہ چینی وزیر کو اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے یقین دلایا کہ سی پیک منصوبہ گیم چینجر ہے اس پر ہم سب متفق ہیں چین ہمارا قریب ترین دوست ملک ہے ہم ملکر ساتھ چلیں گے اپوزیشن جماعتوں نے چینی وزیر کے ساتھ گروپ تصویر بھی بنوائی اور یہ پیغام دیا گیا کہ پاک چین دوستی کو مزید مستحکم کرنے کیلئے ہم اپنا بھرپور کردار ادا کرینگے۔
اب حکومت کی جانب سے تو آپریشن کی بات کی گئی ہے مگر اپوزیشن جماعتوں نے اعتراضات اٹھائے ہیں۔
حکومت نے اسمبلی میں ان کیمرہ سیشن کے ذریعے آپریشن کے خدو خال پر بریفنگ کی بھی یقین دہانی کرائی ہے اب دیکھتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اس آپریشن پر اتفاق رائے پیدا ہوگا کہ نہیں کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ موجودہ ملکی سیکیورٹی معاملات پر چین کے تحفظات ہیں اور چینی حکومت پاکستان میں سیکیورٹی معاملات پر بہت سنجیدہ ہے تاکہ چینی منصوبوں کو نقصان نہ پہنچے۔
بہرحال ملک میں کسی بڑے آپریشن کے فیصلے سے قبل اتفاق رائے ضروری ہے مگر اپوزیشن جماعتوں نے چینی وزیر کو ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے قوی امکان ہے کہ اپوزیشن چینی حکومت کو ناراض نہیں کرے گی کیونکہ مستقبل میں اپوزیشن جماعتیں بھی حکومت میں آئینگی تو انہیں بھی چین کے ساتھ چلنا ہوگا۔