اسپین بولدک: محب اللہ گلابی رنگت، بڑی آنکھوں، مسکراتے چہرے اور آنکھوں میں کِک باکسر بننے کا خواب سجائے ایک عام سا افغانی نظر آتا تھا، لیکن یہ 15 سالہ لڑکا، طالبان کے شکنجے میں آکر اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنی زندگی گزار رہا ہے۔
محب اللہ نے 2014 میں ضلعی گورنر آفس کے باہر خودکش حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا، جس کے بعد اسے جنوبی قندھار میں نابالغوں کی جیل میں بھیج دیا گیا۔
خبر رساں ایجنسی ‘اے ایف پی’ سے بات کرتے ہوئے محب اللہ کا کہنا تھا کہ اُسے یہ تلقین کی گئی تھی کہ اس ‘شہادت’ سے وہ سیدھا جنت میں جائے گا، جہاں وہ حوروں کے ساتھ دودھ اور شہد کی نہروں میں بیٹھے گا۔
محب اللہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ خودکش بمبار تیار کرنے والا شخص ان سے کہتا تھا، ‘آپ جیسے ہی بمبار جیکٹ پھاڑیں گے، آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی اور آپ سیدھا جنت میں جائیں گے’.
سبز رنگ کی جیکٹ زیب تن کیے اور سر پر کڑھائی والی قندھاری ٹوپی پہنے جیل کے وارڈن آفس میں محب اللہ ایک کرسی پر گھبرایا ہوا بیٹھا تھا۔ اس کی کہانی اس بات کی عکاس تھی کہ افغان تنازع نے کس طرح بچوں پر جنگ مسلط کر رکھی ہے۔
انٹرویو کے دوران جیل انتظامیہ بھی وہاں موجود تھی، جبکہ محب اللہ کے عقب میں لگے بورڈ پر جیل میں موجود مجرموں کے جرائم پشتو میں درج تھے۔
محب اللہ کے مطابق اسے تیار کرنے والے افراد نے اسے اعلیٰ عہدوں پر موجود 5 افراد کے نام دکھائے جن میں سے اس نے قندھار کے علاقے ارغنداب کے ضلعی چیف کو نشانہ بنانے کا سوچا جو اس کے مطابق ایک آسان ہدف تھے۔
محب اللہ نے بتایا، ‘گلے میں ہار پہنا کر اور ابدی زندگی کا وعدہ کرنے کے بعد مجھے گلے لگا کر ارغنداب کا ایک لمبا سفر کروایا گیا جہاں میں ایک آدمی سے دوسرے آدمی کے پاس پہنچایا جاتا اور راتیں گاڑی کے پچھلے حصے میں گزارتا.’
تاہم خفیہ اہلکاروں نے ہدف تک پہچنے سے قبل ہی محب اللہ کو گرفتار کرلیا اور 4 سال کی سزا سنا کر نابالغوں کی جیل میں بھیج دیا گیا۔
انسانی میزائل
انٹرویو کے دوران محب اللہ نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ اس کی برین واشنگ پاکستان میں موجود ہزاروں غیر رجسٹرڈ مدارس میں سے ایک میں ہوئی جن میں سے اکثر کو سعودی عرب سے فنڈنگ ہوتی ہے۔
جن کے حوالے سے افغان حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ مدرسے طالبان کی بھرتیوں کا ایک مقام ہیں۔ کابل نے اسلام آباد پر یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ وہ بغاوت کرنے والوں کو پیسے فراہم کرتا ہے.
اکثر خاندانوں کو اُس وقت تک نہیں معلوم ہوتا کہ ان کے بیٹوں کو بھرتی کر لیا گیا ہے، جب تک انہیں اُن کے بیٹوں کے ہلاک ہونے کے بعد بھیجی جانے والی رقم موصول ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ باغیوں نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ‘بغیر داڑھی والے لڑکوں’ کو کاروائیوں کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا، تاہم افغان اہلکاروں نے 6 سال کی عمر کے خودکش بمبار کے حوالے سے بھی رپورٹ کیا ہے.
حکام کا کہنا ہے کہ بچوں کو ‘انسانی میزائل’ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ ان کے چھوٹے جسم کی وجہ سے نقصان بھی زیادہ ہوتا ہے اور ان کی آسانی سے برین واشنگ کی جاسکتی ہے.
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ ایک 12 سالہ خود کش بمبارنے صوبہ ننگرہار میں افغان پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال دیا تھا۔
مذکورہ بچے نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ طالبان نے اسے ‘کافر فوجیوں’ کو ہلاک کرنے کے لیے بھیجا تھا، لیکن جب اس نے فوجیوں کو نماز پڑھتے دیکھا تو اسے شبہ گزرا۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں لکھا کہ ‘طالبان تیزی سے بچوں کا استعمال کررہے ہیں، جس سے افغانستان میں شورش میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ‘بچوں کو اسکول اور گھر میں اپنے والدین کے ساتھ ہونا چاہیئے اور میزائل کے طور پر استعمال نہیں ہونا چاہیے’.
‘زخمی زادہ’
اے ایف پی نے محب اللہ کے خاندان کا سراغ لگایا جو اسپین بولدک کے علاقے میں مٹی سے بنے ایک گھر میں رہائش پذیر ہے، جہاں اس کی نجی زندگی کی باتوں کی تصدیق ہوگئی۔
نقاب کے پیچھے نم آنکھوں اور رندھی ہوئی آواز میں محب اللہ کی والدہ نے کہا، ‘وہ تو بلیوں سے ڈرتا تھا، وہ خودکش بمبارکیسے بن گیا’.
انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے 6 بچوں کو مشکل سے پال رہی ہیں اور قانونی چارہ جوئی کرنے سے قاصر ہیں.
محب اللہ کی والدہ کا کہنا تھا، ‘جب میں اس سے جیل میں ملی اور اس سے پوچھا کہ تم گھر سے کیوں بھاگے تو اس نے رونا شروع کردیا اور میرے گلے لگ کر کہا کہ مجھے گھر لے چلو۔ میں محب اللہ کو بہت یاد کرتی ہوں’. ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ محب اللہ کا چھوٹا بھائی احسان اللہ، اپنے بھائی کے ساتھ باکسسنگ کھیلنے کے دن یاد کرتا ہے.
جیل میں محب اللہ کے چھوٹے سے کمرے کے باہر ‘زخمی زادہ’ کے الفاظ کندہ ہیں، جہاں وہ دیگر 9 قیدیوں کے ساتھ رہتا ہے ۔
احمد اللہ سادات نے محب االلہ سے کہا، ‘تم قیدیوں کو کراٹے جیسی خطرناک چیزیں سکھا رہے ہو’، جس کے جواب میں محب اللہ نے کہا، ‘یہ باکسنگ ہے’۔
سادات نے کہا، ‘تم جیل سے باہر نکل کر بہت بڑے باکسر بنو گے’ اور یہ سن کر محب اللہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔