حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کی بازگشت ایک بارپھرسنائی دے رہی ہے ۔
لیکن حکومت اگر مذاکرات کی بات کرے گی تو پی ٹی آئی اپنے شرائط سامنے رکھے گی جس میں سب سے پہلا ایجنڈا یہی ہوگا کہ بانی پی ٹی آئی کو رہا کیا جائے جبکہ پی ٹی آئی رہنماء جو اس وقت جیلوں میں بند ہیں ان کو بھی رہائی دی جائے ۔
اب یہ تو حکومت کے ہاتھ کا معاملہ نہیں کہ اسمبلی میں ایک قرارداد پاس کرائے جس میں پی ٹی آئی کے مطالبات کو دل پر پتھر رکھ کر تسلیم کیا جائے کیونکہ بانی پی ٹی آئی پر متعدد کیسز عدالتوں میں چل رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی رہنماؤں پر سانحہ 9 مئی کے کیسز ہیں جس پر عدالتیں فیصلہ کرینگی اور 9 مئی سانحے پر عسکری قیادت نے واضح پیغام دیا ہے کہ جو بھی ملوث ہیں ان کے خلاف ایکشن لیا جائے گا ،رعایت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اب حکومت پی ٹی آئی سے کن نکات پر مذاکرات کرے گی انہیں سامنے لایا جائے۔
گزشتہ روز وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی تحریک انصاف کو ایک بار پھر مذاکرات کی پیشکش پر پاکستان تحریک انصاف نے بھی اپنی شرائط سامنے رکھ دیئے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو ایک بار پھر مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا تھا ایک زمانہ تھا جب سیاستدان ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے، اسی ایوان میں تنقید کے باوجود سیاستدان ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا اگر بانی پی ٹی آئی کو مشکلات ہیں تو بیٹھ کر بات کریں، میں آج بھی کہتا ہوں آئیے بیٹھ کر بات کرتے ہیں اور معاملات طے کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے وزیراعظم کی پیشکش پر اپنے خطاب میں شرائط دہراتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی سمیت پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کو رہا کیا جائے۔عمر ایوب کا کہنا تھا میں فارم 47 کے وزیراعظم کو کہنا چاہتا ہوں بات تب ہو گی جب میرا وزیراعظم باہر آئے گا، بات تب ہو گی جب میرے قیدی باہر آئیں گے، یہ ہاؤس اس وقت چل سکے گا جب ہمارا احترام ہو گا۔اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ مفاہمت تب ہو گی جب آپ یاسمین راشد، محمود الرشید کے ساتھ زیادتی کا احساس کریں گے، مفاہمت تب ہو گی جب آپ حسان نیازی کے ساتھ زیادتی کا احساس کریں گے۔
بہرحال پی ٹی آئی نے وہی باتیں دہرائی ہیں جو روزانہ میڈیا پراس کے رہنما کہتے رہتے ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ بات چیت کیلئے تیار تو کجا وہ تو وزیراعظم سمیت پوری حکومت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں جبکہ حکومت کے پاس کیا روڈ میپ ہے کہ بات چیت میں تھوڑی سی پیشرفت ہوتا دکھائی دے۔
بہرحال ملک میں سیاسی استحکام بات چیت کے ذریعے ہی آئے گا مگر پی ٹی آئی کسی طور بھی بات چیت کیلئے سنجیدہ نہیں البتہ پی ٹی آئی کو صرف ایک پس پردہ رابطہ کار کی ضرورت ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کی راہ ہموار کرسکے مگر اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت نہیں کرے گی ۔عسکری قیادت نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن خود بیٹھ کرمذاکرات کریں یہ ہمارا کام نہیں۔
بہرحال ملک میں سیاسی استحکام کیلئے حکومت مذاکرات کیلئے روڈ میپ وضع کرے ،پی ٹی آئی اگر مذاکرات کے ٹیبل پر نہیں آتی تو دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بات چیت کے عمل کو آگے بڑھایا جائے تاکہ ملک میں سیاسی استحکام آسکے۔