|

وقتِ اشاعت :   June 30 – 2024

پی ٹی آئی عام انتخابات سے قبل ہی اندرون خانہ بدترین اختلافات کا شکار رہی ہے۔
بہت سے پرانے قائدین اور نئے آنے والے رہنما پارٹی پالیسی اور قیادت کے حوالے سے ایک دوسرے کے مد مقابل دکھائی دیتے رہے ہیں اور جب بھی کسی اہم معاملے پر پارٹی پالیسی بیان سامنے آتا تو دوسری جانب سے پارٹی کے ہی دیگر رہنماء اس کی تردید کرتے۔ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ پارٹی معاملات اور پالیسی کے متعلق بھی بات چیت پر ابہام دکھائی دیا۔ اب پی ٹی آئی کے رہنمائوں کے مرحلہ وار استعفے سامنے آرہے ہیں۔

پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آئی ہے۔

ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں آپسی لڑائیوں اور اختلافات پر ممبران نے کھل کر گفتگو کی، عمر ایوب اور بیرسٹر گوہر کی موجودگی میں ارکان نے قیادت کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کیا۔

ذرائع کے مطابق ایک ممبر نے انکشاف کیا کہ عمر ایوب کا استعفیٰ دیتے ہی متبادل پنجاب سے لانے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔

ارکان نے رائے دی کہ شیخ وقاص اکرم کو عمر ایوب کے متبادل کے طور پر سامنے لایا جائے، اسد قیصر قیادت کے ہمراہ پارٹی کے اختلافات اور مسائل کے حل کے لیے کردار ادا کریں۔

پارلیمانی پارٹی کے اراکین نے رائے دی کہ نئی پالیسی بنا کر آپسی نفرتوں کو ختم کیا جائے، بیرسٹر گوہر علی، عمر ایوب اور زرتاج گل نے پارٹی کے اندرونی اختلافات کے خاتمے کے لیے کوششوں پر اتفاق کیا۔

ذرائع کے مطابق ممبران نے رائے دی کہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں غیر متعلقہ تمام افراد کا داخلہ روکا جائے، جب اجلاس ہو رہا ہو تو موبائل یا کیمرہ استعمال ہوتا ہے جس سے خبریں باہر چلی جاتی ہیں، ایسی تمام چیزوں کا استعمال بھی فوری روکا جائے جس سے پارٹی کے اندر کی خبریں باہر جاتی ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روزعمر ایوب کے استعفے کے اعلان کے بعد اپنے ایک بیان میں شیر افضل مروت نے کہا تھا کہ پارٹی کے اہم عہدوں پر فائز چند دیگر افراد کو بھی ان کی پیروی کرنی چاہیئے، شبلی فراز کے استعفے سے ہی پارٹی قبضہ مافیا کے چنگل سے آزاد ہوگی۔اپنے بیان میں شیر افضل مروت نے کہا کہ شبلی فراز کو ہٹایا گیا تو وعدہ کرتا ہوں کہ پارٹی وقت کی ضرورت کے مطابق اٹھے گی، پارٹی کارکن مجھے میدان میں چاہتے ہیں تو میرے مطالبے کے حق میں آواز بلند کریں۔

اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف میں اختلافات سامنے آئے تھے اور 21 ارکان قومی اسمبلی نے الگ گروپ بنانے کا عندیہ دیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق شہریار آفریدی کے استعفیٰ سے متعلق بیان کے بعد27 سے زائد ممبران نے استعفوں پر مشاورت کی جبکہ شاندانہ گلزار اور شیر افضل مروت سمیت متعدد ممبران نے پارٹی قیادت کی نااہلی پراحتجاج بھی کیا تھا۔

بہرحال یہ پرانی جنگ پی ٹی آئی کے اندر چلتی آرہی ہے دو گروپس میں قیادت لینے کی جنگ ہے جس سے بانی پی ٹی آئی بھی بخوبی آگاہ ہیں جو ماحول پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کے حوالے سے نظر آرہا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ مستقبل میں پی ٹی آئی مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگی چونکہ پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے نئے افراد کی اہم عہدوں پرتعیناتی اور پارٹی پالیسی بنانے پر پرانے قائدین نالاں ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ پرانی قیادت کو ہی تمام ذمہ داریاں سونپ دی جائیں مگر بانی پی ٹی آئی کی مرضی و منشاء کے بغیر کسی کو بھی کوئی عہدہ نہیں دیا جاسکتا ۔بانی پی ٹی آئی کیلئے اب مزید مشکلات بڑھ جائینگی سیاسی ماحول سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں پی ٹی آئی بہت کمزور ہوگی۔

اسمبلی اور باہر دونوں محاذوں پر پی ٹی آئی حکومت کے خلاف کوئی موثر تحریک نہیں چلاسکتی۔

شہباز حکومت کو بہرحال اس سے ماحول سے فائدہ پہنچے گا کیونکہ حکومت کیلئے مشکلات کھڑی کرنے والی جماعت اب خود لڑکھڑانے لگی ہے۔