لاہور/ امرتسر: پاکستانی حکام نے لاہور کے جناح ہسپتال میں 11 اپریل کو ہلاک ہونے والے ہندوستانی جاسوس کی میت واہگہ کے راستے انڈین حکام کے حوالے کردی.
ایک رپورٹ کے مطابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) اقبال حسین شاہ کا کہنا تھا کہ ہندوستانی سفارت خانے کے نمائندے پر مشتمل ایک میڈیکل بورڈ نے ہندوستانی جاسوس کا پوسٹ مارٹم کیا.
ان کا کہنا تھا کہ قانونی کارروائی کے بعد سنگھ کی میت ہندوستانی حکام کے حوالے کردی گئی.
کرپال سنگھ — فوٹو : بشکریہ دکن کرونیکل
یاد رہے کہ کرپال سنگھ کو 29 فروری 1992 کو پاکستان میں داخل ہوتے وقت گرفتار کیا گیا تھا، انھیں 1991 میں فیصل آباد کے ریلوے اسٹیشن میں ہونے والے بم دھماکوں میں ملوث قرار دے کر پاکستان میں جاسوسی اور دہشت گردی کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے انھیں بم دھماکے کے الزامات سے تو بری کردیا لیکن ان کی سزائے موت برقرار رکھی.
کوٹ لکھپت جیل میں قید سنگھ کو رواں ماہ 11 اپریل کو سینے میں درد کی شکایت پر ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں بعدازاں ان کا انتقال ہوگیا.
پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ کرپال سنگھ کی موت ہارٹ اٹیک سے ہوئی.
یاد رہے کہ اس سے قبل 2013 میں سزائے موت کے قیدی ہندوستانی سربجیت سنگھ پر کوٹ لکھپت جیل میں 2 دیگر قیدیوں نے حملہ کیا تھا، جو بعدازاں جیل میں دوران علاج ہلاک ہو گیا تھا۔
کرپال سنگھ کی ہلاکت کے بعد ان کی بہن جاگیر کور نے پاک- ہندوستان سرحد اٹاری واہگہ کی ایک چوکی پر اپنے بھائی کی موت کے خلاف احتجاج کیا تھا، انھوں نے الزام عائد کیا کہ ان کے بھائی کرپال سنگھ کو بھی سربجیت سنگھ کی طرح قتل کیا گیا ہے اور پاکستانی جیل حکام اس کی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں۔
‘دل اور جگر غائب’
دوسری جانب ہندوستانی حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ کرپال سنگھ کے جسم میں سے دل اور جگر غائب ہے.
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پوسٹ مارٹم میں انکشاف ہوا ہے کہ کرپال سنگھ کے جسم سے دل اور جگر جیسے اہم اعضاء غائب ہیں.
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹینڈرڈ میڈیکل پروسیجر کے تحت پاکستان مزید ٹیسٹ کے لیے اہم اعضاء اپنے پاس رکھ سکتا ہے.
دوسری جانب کرپال سنگھ کے اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ ان پر جیل میں تشدد کیا گیا.
کرپال کے بھتیجے اشوانی کمار کے مطابق ‘ان کی موت ہارٹ اٹیک سے نہیں ہوئی، میں نے اپنے انکل کی میت دیکھی ہے، اس پر زخموں کے نشان موجود تھے، ان پر اتنا تشدد کیا گیا کہ وہ ہلاک ہوگئے.’