ملکی بجٹ جب آئی ایم ایف کی شراکت داری سے بنائی جائے گی تو آئی ایم ایف کے بیشتر شرائط کو ماننا تو پڑے گا اور اس پر عملدرآمد بھی ہوگا جو کہ اب فیصلوں کے ذریعے واضح نظر آرہا ہے۔
وفاقی حکومت کو آئی ایم ایف کے ساڑھے 3 ہزار ارب روپے کے ٹیکس کے مطالبے کو لازمی پورا کرنا ہے جبکہ اگلے 3 سے 4 سال میں 100 ارب ڈالر کی فنانسنگ کی ضرورت ہے جو ٹیکسز سمیت دیگر اقدامات کے ذریعے پوراکرنا ہے اور تمام مشکل فیصلوں کا بیشتر بوجھ عوام پر ہی ڈالا جارہا ہے۔
اس مشکل بجٹ نے لوگوں کو پریشانی میں مبتلا کرکے رکھ دیا ہے تنخواہ دار طبقہ سے لے کر دیہاڑی دار افراد کیلئے تو اب گھر چلانا بھی مشکل ہوکر رہ گیا ہے جس کی بڑی وجہ ہر چیز پر ٹیکس ہے۔
عوام کی تکلیف کا احساس اگر کیا جاتا تو بڑے پیمانے پر ٹیکسز لاگو نہیں کئے جاتے۔
حکومتی نمائندگان کی جانب سے بتایا جاتا ہے کہ چند مہینوں میں ملک میں استحکام آیا اور مہنگائی پرقابو پالیا گیا ہے، وزیراعظم سے لے کرکابینہ ممبران تک نہ کوئی تنخواہ لیتا ہے اور نہ مراعات ، 30 سے 40 غیر ضروری محکموں کو بند کیا جائے گا، جن وزارتوں کی ضرورت نہیں انہیں صوبوں سے مل کر ختم کیا جارہا ہے جب کہ نجکاری کا پروگرام بھی تیزی سے جاری ہے۔
بہرحال وفاقی کابینہ سمیت دیگر اراکین اسمبلی کی مراعات میں کیاکمی کی گئی ہے اس کی تفصیلات سامنے نہیں لائی گئیں۔
ہمارے ہاں اسمبلی ارکان سے لیکر دیگر اداروں کے سربراہان و آفیسران تک کو مفت پیٹرول، ڈیزل، بجلی سمیت تمام پروٹوکول مل رہا ہے جو عوام کے ٹیکسز کی مد میں سے پورا کیا جاتا ہے۔
اشرافیہ پر کوئی بوجھ نہ ڈالا گیا ہے اور نہ ہی ان پر ٹیکسز لاگو کئے گئے ہیں ،وہ دہائیوں سے مراعات کے مزے لے رہے ہیں بس حکومت یہ بیان دیتی ہے کہ اشرافیہ پر ہاتھ ڈالا جائے گا عوام کے ساتھ مزید ظلم و زیادتی برداشت نہیں کی جائے گی مگر یہ سب بیانات کی حد تک ہے ۔
تمام مراعات یافتہ طبقہ اب بھی قومی خزانے سے مستفید ہورہاہے ان کی مراعات میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی ہے۔
بہرحال اس بجٹ نے عام لوگوں کیلئے بہت سی مشکلات پیدا کردی ہیں، گھر کا کچن، بچوں کی تعلیم، صحت سمیت دیگر اخراجات سے سب پریشان ہوکر رہ گئے ہیں۔
آنے والے دن لوگوں کیلئے مزید پریشانی کا سبب بنیں گے، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا یہ بھی ممکن ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی بڑھ جائیںجس کا براہ راست اثر عوام پر مہنگائی کی صورت پڑے گا۔ حکومت نے مشکل دور میں عوام کو ہی مشکلات میں ڈال دیا ہے مراعات یافتہ طبقہ صرف بیٹھ کر مزے لے رہاہے۔