|

وقتِ اشاعت :   July 15 – 2024

بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے لواحقین اور حکومتی وفد کے درمیان مذکرات کامیاب ہوگئے، جس کے بعد مظاہرین نے دھرنا 15 روز کے لیے ختم کردیا۔

کوئٹہ کے عبدالستار ایدھی المعروف ہاکی چوک پر لاپتہ افراد کے لواحقین نے حکومتی وفد سے مذکرات کیے، لاپتہ ظہیر بلوچ کی بہن یاسمین عبداللہ اور حکومتی وفد کے درمیان تحریری معاہدے کے بعد دھرنا 15 دن کے لیے مؤخر کردیا گیا۔

باہمی اتفاق رائے سے طے پایا کہ ظہیر بلوچ کی گمشدگی کا مقدمہ سی ٹی ڈی کے نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا جائے گا، 11 جولائی کو گرفتار کیے جانے والے تمام مظاہرین کو رہا اور مقدمات ختم کیے جائیں گے جبکہ 13 جولائی کو توڑ پھوڑ کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا، جن سے لاپتہ افراد کے لواحقین کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔بلوچ یکجہتی کونسل کے مظاہرین کو سامان واپس کیا جائے گا، لاپتہ ظہیر بلوچ کی بازیابی کے لیے مشترکہ کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو 15 دنوں میں رپورٹ پیش کرے گی۔

15 روز کے دوران کوئی دھرنا نہیں دیا جائے گا جبکہ مستقبل میں کسی قسم کے احتجاج اور دھرنے کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے کیے جائیں گے۔

بہرحال گزشتہ چند دنوں سے یہ احتجاجی دھرنا جاری تھا، لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے پہلے کوئٹہ کے سریاب روڈ پر احتجاجی دھرنا دیا تھا پھر اس کے بعد ریڈ زون کی طرف پیش قدمی کی تو حالات کشیدہ ہوگئے اور ناخوشگوار واقعات پیش آئے ۔

اس سے قبل بھی لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی جانب سے متعدد بار احتجاجی مظاہرے، دھرنے اور لانگ مارچ کئے گئے ہیں اور انہی ادارتی صفحوں میں اس پر تجزیہ بھی کیا جاچکا ہے کہ یہ دیرینہ مسئلہ ہے مگر حل کی طرف نہیں بڑھ رہا ۔

اس وقت بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ ہی سب سے بڑا ہے جو بلوچستان کے سیاسی حالات سے براہ راست تعلق رکھتا ہے اس مسئلے کو حل کئے بغیر سیاسی ڈائیلاگ میں پیش رفت ممکن نہیں ہے ،دونوں معاملات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اس لئے لاپتہ افراد کے معاملے کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے ،جس نے خلاف قانون کام کیا ہے انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے ،اس حوالے سے لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا بھی یہی موقف ہے ۔

بہرحال بلوچستان میں اس وقت امن کی اشد ضرورت ہے اور اس کیلئے بلوچستان کے اہم مسائل پر گفت و شنید ضروری ہے تاکہ مسائل کے حل کی طرف پیش رفت ہوسکے اور بلوچستان میں موجود مسائل مزید گھمبیر صورت اختیار نہ کر پائیں بلکہ باہمی اتفاق سے فریقین مذاکرات کے ذریعے معاملات کو حل کریں تاکہ حالات بگاڑ کی بجائے بہتری کی طرف بڑھیں۔