|

وقتِ اشاعت :   July 19 – 2024

پاکستان تحریکِ انصاف پر پابندی کے حکومتی اعلان کے بعد حکمراں جماعت کے موقف میں تبدیلی آ گئی ہے۔وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگانے جا رہی ہے۔

تاہم اس بیان کے بعد وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے اس فیصلے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی پر پابندی سے متعلق اتحادیوں سے مشاورت کی جائے گی۔پی ٹی آئی پر پابندی کے حکومتی اعلان کے فوراً بعد ہی پی ٹی آئی سمیت حزبِ اختلاف کی بعض سیاسی جماعتوں نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا تھا اور اسے حکومت کا جذبات میں کیا جانے والا فیصلہ قرار دیا تھا۔.

حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کا پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے کہنا ہے کہ ہم سے مشاورت نہیں کی گئی ،

پارٹی کا جو فیصلہ ہوگا ہم ساتھ کھڑے ہونگے البتہ بعض رہنماؤں نے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی مخالفت کی ہے جب کہ اپوزیشن جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے حکومتی فیصلے کو غیر منطقی قرار دیا۔ دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ نے بھی منگل کو ایک بیان میں پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا۔پی ٹی آئی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے پابندی کے حکومتی فیصلے پر تنقید کے بعد حکمراں جماعت نے اپنے موقف میں منگل کو اْس وقت لچک دکھائی جب وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے اعلان کیا کہ پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ اب تک نہیں ہوا اور اس معاملے پر اتحادیوں سے مشاورت کی جائے گی۔اسحاق ڈار نے لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اتحادیوں سے مشاورت کے بعد ہی پی ٹی آئی پر پابندی لگانے یا نہ لگانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس پی ٹی آئی کے خلاف فارن فنڈنگ کے ثبوت ہیں جنہیں کوئی جھٹلا نہیں سکتا اور ان ثبوتوں کی روشنی میں پی ٹی آئی پر پابندی کے معاملے پر لیڈر شپ اور اتحادیوں سے قانون و آئین کے مطابق فیصلہ ہوگا۔

بہرحال پی ٹی آئی پر پابندی کا معاملہ اس وقت سامنے آرہا ہے جب سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے اور اسے سیاسی جماعت قرار دینے کا فیصلہ آیا ہے۔ پی ٹی آئی پر پابندی کے حوالے سے کابینہ میں مشاورت ہوگی سرکولیشن بھی جاری کیا جائے گا پھر یہ معاملہ سپریم کورٹ کے پاس آئے گا جبکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں آنے کا قوی امکان ہے کیونکہ مخصوص نشستوں کے کیس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ واضح طور پر سامنے ہے

۔یہ معاملہ اب اداروں کے درمیان ٹکراؤ کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے ۔

سیاسی ماحول کا تجزیہ کیا جائے تو وفاقی حکومت نے یہ ذہن بنالیا ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانی ہے الیکشن کمیشن نے بھی تیاری کرلی ہے سب سے اہم کیس فارن فنڈنگ کا ہے اس کے مکمل شواہد سپریم کورٹ میں پیش کرنے ہونگے کہ فنڈنگ ہوئی ہے رقم کہاں سے ،کس کس نے کیوں اور کس نیت سے بھیجے ہیں، قومی سلامتی کو خطرات کس طرح لاحق ہیں یعنی ایک مضبوط کیس بنانا ہوگا پھر عدالت کے پاس بھی درجنوں سوالات ہونگے ۔

بہرحال سائفر کیس، 9 مئی پر جلاؤ گھیراؤ، جناح ہائوس، قومی تنصیبات پر حملے کے تو باقاعدہ ویڈیو زموجود ہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت 9 مئی کے احتجاج کی دعوت کھلے عام دے رہی ہے جب کہ جائے وقوعہ کے بھی شواہد موجود ہیں مگر اس کے باوجود بھی حکومت نے کوئی مضبوط کیس کے طور پر یہ مقدمہ نہیں لڑا اور پی ٹی آئی کے قائدین آزادانہ گھوم رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فارن فنڈنگ کیس سمیت دیگر کون سے چارجز لگا کر حکومت سپریم کورٹ جائے گی جن کی بنیاد پر پی ٹی آئی پر پابندی لگ سکے۔ بہرحال آنے والے دنوں میں سیاسی ماحول تو گرم رہے گا مگر ساتھ ہی اداروں کے درمیان بھی کشیدگی بڑھنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا جو موجودہ حالات میں ملک کے مفاد میں نہیں۔