|

وقتِ اشاعت :   July 19 – 2024

کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں نام نہاد آزادی کی جنگ میں کالعدم تنظیموں نے 5ہزار سے زائد پاکستانیوں کو شہید کردیا ریاست نے ہر بار مذاکرات کی کوشش کی مگر شدت پسندی کی سوچ رکھنے والے ان لوگوں نے اسے ناکام بنا دیا ہم چاہتے ہیں

کہ مذاکرات کے ذریعے پر امن ماحول قائم کیا جاسکے تاہم اگر مذاکرات نہیں ہوتے تو کسی کو بھی پنجابیوں کے قتل فورسز پر حملے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دینگے حکومت اپنی رٹ قائم کریگی ان خیالات کااظہارا نہوں نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا

انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ بلوچستان میں آزادی کی جنگ لڑنے والے سڑکیں اور اسکول نہ ہونے پر ناراض ہیں درآصل یہ وہ لوگ ہیں جو ایک سازش کے تحت پاکستان کو توڑنے کی کوشش کررہے ہیں

تاکہ گریٹر بلوچستان بنا یا جاسکے جس کیلئے پاک سرزمین پر دہشتگردی کا بازار گرم کر رکھا ہے تاہم ہماری بد قسمتی ہے کہ بلوچستان میں اس طرح کی پر تشدد کارروائیوں کو برا تشدد کہا ہی نہیں جاتا بلکہ اسے ناراضگی کے زمرے میں ڈال دیا جاتا ہے

جبکہ اسلام آباد کو بھی بلوچستان سے متعلق واضح علم نہیں وہاں صرف تصویر کا ایک رخ دیکھا جاتا ہے

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کو کنٹرول کرنا ریاست کیلئے بڑا چیلنج نہیں ہے حکومت اپنی رٹ قائم کرنے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لاسکتی ہے بلوچستان میں اس وقت پانچ سے چھ کے قریب کالعدم تنظیمیں ہیں اس میں ایک بی ایل اے جس کو نواب خیر بخش مری کا بیٹا حیربیار مری چلا رہا ہے

وہ خود لندن میں ہے اوربلوچستان میں عام بلوچ کو بندوق تھما کر ان سے پنجابیوں ،اساتذہ،ڈاکٹرز اور سیکورٹی اہلکاروں سمیت اپنے بلوچوں کابھی قتل کروا رہا ہے دوسری تنظیم بی آر اے ہے جو نواب اکبر بگٹی کے پوتے براہمدغ بگٹی چلا رہے ہیں جو اس وقت یورپ میں ہے اس کے بعد بلوچ لبریشن آرمی ہے اچھوگروپ تھا اس کومجید برگیڈ کا نام دیا گیا بی ایل ایف کو ڈاکٹر اللہ نذربلوچ لیڈ کررہا ہے

پھر یو بی اے ہے اس کو حیر بیار مری کے چھوٹے بھائی زمران مری لیڈ کررہے ہیں اس کے بعد لشکر بلوچستان ہے اس کو سردار اختر جان مینگل کے بھائی جاوید مینگل لیڈ کررہے ہیں یہ چند گروپس ہیں جو ملکر بلوچستان میں دہشتگردی کرتے ہیں جنہیں میں را فنڈڈ لشکر کہتا ہوں جو بندوق کے زور پر بلوچستان میں تشدد کرتے ہیں اور تشدد کے زور پر اپنا موقف مسلط کرنا چاہتے ہیں تاہم ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں

کہ یہ لوگ پاکستان کی منظم فوج اور آئین کے ہوتے ہوئے کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں دورجدید نئی ٹیکنالوجی کیساتھ دہشتگرد تنظیموں کی نقل وحرکت اور پیسے کی فراہمی اور ترسیل کا آسانی سے سراغ لگا یا جاسکتا ہے اس کے علاوہ ہمارے پاس ایسے بھی شواہد موجود ہے کہ ڈاکٹر اللہ نذر کا علاج کہاں ہوا اور براہمداغ بگٹی کے بیٹے کی ولادت کہاں ہوئی انہوں نے کہا کہ لوگوں کا کہنا ہے کہ نواب اکبر بگٹی کی وفات 26اگست 2006کو ہوئی کیا دنیا کو پتہ ہے کہ نوا ب اکبر بگٹی نے پہلا فراری کیمپ جس میں اپنے پو تے برامداغ بگٹی کو بھیجا وہ 21جون 2002کو پشینگی کے مقام پر بنا یا کیا ضرورت تھی

فراری کیمپ بنانے کی اس وقت کیا بلوچستان میں ملٹری ا ٓپریشن ہورہا تھا آپریشن نہیں ہورہا تھا تو ریاست کے خلاف جنگ پہلے شروع کی گئی تھی اور 26اگست کے بعد جو 2008کا الیکشن ہو تا ہے تو پورے بلوچستان کا سب سے پر امن انتخابات تھے

جس کے بعد آصف علی زردری نے آغاز حقوق بلوچستان کے تحت ڈاکٹرا للہ نذر کو رہا کردیا تمام سیکورٹی فورسز واپس بلا ئی تب ان تنظیموں کو خیال آیا کہ نواب بگٹی کا بدلہ پنجابی نائی دھوبیوں سے لیں گے 2008-2009میں کوئٹہ میں مجید لانگو نے ٹارگٹ کلنگ شروع کر دی 210پنجابی مجید لانگو نے مارے ہیں میں ثبوتوں کیساتھ بات کررہا ہوں کہ ما ما قدیر کا جو بیٹا ہے دوسرا ذاکر مجیدان کی تقریر یوٹیوب پر ہے

اس تقریر میں کہہ رہا ہے کہ یہ دھرتی خون مانگ رہی ہے یا ہمارا خون گرے گا یا دشمن کا تو سووال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دشمن کون ہے یہاں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بلوچستان میں جاری لڑائی ریاست نے شروع کی مگر کوئی یہ نہیں جانتا کہ 26اگست 2006سے پہلے ہی یہاں پہلے ہی دہشتگردی کی داغ بیل رکھ دی گئی تھی 2000میں جسٹس نواز مری قتل کیس میں ان کے اہل خانہ نے نواب خیر بخش مری کو نا مزد کیا

جس پر یہ ناراض ہوئے اور راکٹ فائر کرنا شرو ع کردیئے سوات میں اگر لوگ ریاست کی رٹ چیلنج کریں تو پورا سوات خالی کر کے آپریشن کیا جا تا ہے مگر بلوچستان میں کیا کبھی ایسا ہوا ہے بلا شبہ نہیں اور ہم نہیں چاہتے ہیں کہ ایسا ہو ہم چاہتے ہیں کہ مسائل مذاکرات سے حل ہو ریاست نے ہمیشہ سے مذاکرات کے دروازے کھلے رکھے ہیں نواب اکبر بگٹی اپنے چچا کے قتل میں گرفتار تھے جنہیں ریاست نے رہا کیا

نواب خیر بخش مری حیدر آباد سازش کیس میں بری ہوئے بالاچ مری مرحوم کو لندن سے واپس لا کر یہاں ایم پی اے بنا یا میں اب بھی بحیثیت وزیر اعلیٰ مذاکرات کیلئے تیار ہوں جو بھی مملکت کے آئین اور قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے مذاکرات کرے گا ان سے بات چیت کی جائیگی ہماری اور برامداغ بگٹی کی ذاتی کوئی جنگ نہیں ہمارا پہلے دن سے موقف واضح ہے ہم ریاست کیساتھ کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے مگر وہ ریاست کو توڑنا چاہتے ہیں جس بنیاد پر انہوں نے شدت پسندی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ہمارے لوگوں کو قتل کیا

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر مالک بلوچ نے اپنے دور میں مذاکرات شروع کئے تھے مگر اس میں انہوں نے کسی سے مشورہ نہیں کیا میں خود اس کا وزیر داخلہ تھا مجھ سے بھی مشاورت نہیں کی گئی مذاکرات سے مسائل کا حل ہونا خوش آئند ہے تاہم اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیا انہیں پنجابیوں کو مارنے فورسز پر حملے اور دیگر دہشتگردانہ عوامل کی اجازت دی جاسکتی ہے آئین ہمیں مظلوم کیساتھ کھڑا ہونے کا حکم دیتا ہے نہ کہ ظالم کیساتھ بلوچستان میں ا ب تک پانچ ہزار سے زائد لوگ ان دہشتگرد تنظیموں کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں تو ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا بلوچ روایات میں مہمانوں کیساتھ ایسا رویہ روا رکھنے کی اجازت ہے ۔