مسلم لیگ ن کی قیادت کی جانب سے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے حوالے سے فیصلہ تو کرلیا گیا ہے لیکن ن لیگ کی جانب سے اتحادیوں کو اعتماد میں لینے کے بعد صورتحال واضح ہو جائے گی کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے حوالے سے تمام اتحادی ایک پیج پر ہیں کہ نہیں۔
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا آج ہونے والا اجلاس ملتوی ہو گیا۔
ذرائع کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے آج وفاقی کابینہ کا اہم اجلاس طلب کیا تھا جس میں پی ٹی آئی پر پابندی سے متعلق منظوری لی جانی تھی۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، سابق صدر عارف علوی اور سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی منظوری بھی لی جانی تھی۔
تاہم اب اطلاعات یہ ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والا اجلاس ملتوی کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے اور عمران خان، عارف علوی اور قاسم سوری پر آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
البتہ اس فیصلے پر مسلم لیگ ن کے اتحادیوں کی جانب سے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ حکومت نے اس معاملے پر انہیں اعتماد میں نہیں لیا جس پر وزیراعظم شہباز شریف نے اتحادیوں کو اعتماد میں لینے کے لیے مسلم لیگ ن کی ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔
اس معاملے پر دونوں جماعتوں کے درمیان ایک اجلاس بھی ہوا تھا جس میں پاکستان پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی پر پابندی کے لیے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلانے کا اعلان کیا تھا۔
گزشتہ روز ایک بار پھر وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے اعلان کیا کہ پیپلز پارٹی پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کے معاملے پر حکومت کے ساتھ ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چند رہنماء پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے خلاف بیان دے چکے ہیں۔
اب پیپلز پارٹی کی جانب سے پارٹی فیصلے کے بعد پی پی ٹی آئی پر پابندی کے متعلق صورتحال واضح ہوگی۔
ن لیگ نے کمر کس لی ہے جبکہ اپوزیشن جماعتیں پابندی کے خلاف ہیں۔
اس وقت ملک میں سیاسی صورتحال مزید پیچیدگی کی طرف بڑھ رہی ہے ،عدم استحکام ملک میں نئے بحرانات کا سبب بن سکتا ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ کابینہ کیا فیصلہ کرے گی کیونکہ معاملہ عدالت میں جانے کے بعد بھی سیاسی صورتحال میں بہتری کے امکانات دکھائی نہیں دے رہے چونکہ ہر فریق اپنے حق میں فیصلہ چاہتا ہے اگر خلاف فیصلہ آجائے تو پھر عدلیہ تنقید کی زد میں آئے گی۔
بہرحال ملک میں سیاسی مسائل کا حل نکالنا خود سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے تاکہ مستقبل میں اس کے نقصانات معاشی تنزلی کی صورت میں نہ نکلیں۔