فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے آئی پی پیز کیپسٹی چارجز کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کرلیاہے۔
ایف پی سی سی آئی کے قائم مقام صدرعبد المہیمن خان کا کہنا ہے کہ معیشت اور عوام کو بچانے کے لیے آخری آپشن استعمال کر رہے ہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ آئی پی پیز کے فارنزک آڈٹ کا حکم دیا جائے، آئی پی پیز کے کیپسٹی چارجز کو ختم کیا جائے اور معاہدے ازسرنو کیے جائیں۔
سابق وفاقی وزیر گوہراعجاز کا کہنا ہے کہ پاکستان اربوں روپے ان کمپنیوں کو ادا کرتا ہے جو بجلی پیدا نہیں کرتیں، سپریم کورٹ سے اس ناقابل برداشت صورتحال میں مداخلت کی درخواست کریں گے۔
گوہراعجاز کے مطابق مہنگی بجلی تمام پاکستانیوں کے لیے ناقابل برداشت ہو چکی ہے، بجلی کی زیادہ قیمت شہریوں کو غریب اور کاروباروں کو دیوالیہ کر رہی ہے۔
بہرحال اب آئی پی پیز کے چارجز کا معاملہ زیر بحث آرہا ہے جس کی وجہ مہنگی بجلی ہے۔
آئی پی پیزبجلی بنائیں ، نا بنائیں مگر اس کے باوجود حکومت معاہدے کے تحت ان کو رقم ادا کرتی ہے جس کا سارا بوجھ عوام اور تاجر برادری پر پڑ رہا ہے۔
بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ بھی بجلی کی پیداوار کی وجہ سے ہے مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومت اصل معاملے کی طرف کیوں نہیں آرہی کہ آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کا از سرنو جائزہ لے ۔
نگران سابق وزیر گوہر اعجاز نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ 40 خاندانوں کو خوش کیا جارہا ہے اور سارا بوجھ لوگوں پر ڈالا جارہا ہے ۔
بہرحال گوہر اعجاز نے چالیس خاندانوں کی نشان دہی نہیں کی اور نہ ہی کسی کا نام لیا ہے لیکن اگروہ ان ناموں کو بھی سامنے لاتے تو عوام کے سامنے یہ بات آشکار ہو جاتی کہ وہ کونسی شخصیات ہیں جو پاکستانی عوام کا خون چوس رہی ہیں۔
عموماً ایسے کاموں میں ہماری یہاں کی بڑی شخصیات کے ہی نام آتے ہیں جن کا تعلق حکومتوں سے بھی ہوتا ہے۔
بہرحال اس وقت ملک میں بجلی، گیس، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں نے تمام طبقات کو پریشان کر رکھا ہے۔
فی الحال اس آئی پی پیز کے معاملے کو حکومت کسی نتیجہ تک پہنچائے اور جو انکشافات سامنے آرہے ہیں ان سے متعلق حقائق کو بھی سامنے لایا جائے۔
نیز عوام کو مہنگی بجلی سے چھٹکارا دلایا جائے اور آئی پی پیز کا آڈٹ کیا جائے اور انہیں اتنی ہی ادائیگی کی جائے جتنی بجلی ان سے لی جاتی ہے۔
کیپسٹی چارجز کا گورکھ دھندا اب بند ہوجانا چاہئے۔
آئی پی پیز کیپسٹی چارجز، مہنگی بجلی سے ہر طبقہ متاثر، حکومت آئی پی پیز سے ازسرنو معاہدے پر غور کرے

وقتِ اشاعت : July 25 – 2024